شہروں کی خواتین موافق منصوبہ بندی

0

میتا راجیو لوچن
(مترجم: محمد صغیر حسین)

ہندوستان میں شہری منصوبہ بندی میں جنسی تناظرات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ خواتین کی تشویشات کے مدنظر، شہروں کی ازسرنو منصوبہ بندی کرنی ہوگی تاکہ وہ مردوں کے مقابلے میں کم توانائی، کم وقت اور کم پیسے خرچ کرکے اپنا کام کرسکیں اور آسانی سے اپنے کنبے کی نگہداشت کرسکیں۔
اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ (Economist Intelligence Unit) کی تیار کردہ رپورٹ Safe City Index-2019 نے ممبئی اور دہلی کا شمار دنیا کے اُن بدترین شہروں میں کیا ہے جہاں عورتوں کا تحفظ ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ انڈیکس نے جن عوامل کی بنیاد پر جو نتائج اخذ کیے ہیں، اُن میں دوسری چیزوں کے علاوہ ذاتی تحفظ، ڈیجیٹل تحفظ اور انفرااسٹرکچر تحفظ شامل ہیں۔ یہ سارے عوامل عورتوں کے حالات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہ عورتوں کی عوامی مقامات پر رسائی، روزگار اور یہاں تک کہ اُن کے تفریحی اوقات پر بھی منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ عورتوں کے مسائل سے عدم دلچسپی کے نتیجے میں ناقص حفظانِ اطفال اور سفر کی دشواریاں وجود میں آتی ہیں۔
شہروںکو خواتین موافق بنانے کے لیے شہری منصوبہ سازوں کو دو اہم امور پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی: تشدد سے اور زیادہ تحفظ اور حفظانِ اطفال میں کافی تعاون۔ آج کے بیانات میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسٹریٹ لائٹوں کی درستگی اور محفوظ ٹوائلٹوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہ سب اہم ہیں لیکن ان سے بھی زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ عوامی مقامات کو محفوظ تر بنانے کے لیے اراضی کے مخلوط استعمال کی منصوبہ بندی کی جائے۔ تجارتی اور رہائشی علاقوں کی علیحدگی، گھر سے کام کی جگہوں تک آمدورفت کے تسلسل میں ازخود اضافہ کردیتی ہے اور عورتوں کی نقل و حرکت میں دشواریاں پیدا کرتی ہے۔ اس کے بجائے اگر رہائشی آبادیوں میں ہی آفس اور تجارتی علاقے قائم کیے جائیں تو سڑکوں کا مستقل استعمال بھی ہوگا، روشنی کے بہتر انتظامات بھی ہوں گے اور عورتیں آسانی سے کام کی جگہوں اور عوامی مقامات پر آجاسکیں گی۔
ہمارے پاس منصوبہ بند شہر چنڈی گڑھ کی ایک روشن مثال پہلے سے موجود ہے۔ یہ شہر پورے ہندوستان میں عورتوں کے لیے محفوظ ترین شہر ہے۔ یہ شہر بہت سارے سیکٹروں میں تقسیم ہے۔ ہر سیکٹر ایک چھوٹی سی آبادی پر مشتمل ہے جس میں مقامی بازار، کمرشیل آفسز، اسکول، پبلک پارکس، ڈاک خانہ، پولیس، چوکیاں اور طبی مراکز ہوتے ہیں۔ سایہ دار فٹ پاتھ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ آپ پورے شہر کا چکر پیدل چل کر لگاسکتے ہیں اور آپ اس پوری مسافت میں سایہ دار درختوں کے درمیان ہوں گے۔ بڑے پیمانے پر مخلوط استعمال کا یہ نمونہ چنڈی گڑھ کے علاوہ اور کسی شہر میں نہیں اپنایا گیا۔ یہ شہر اپنے آپ میں ایک انفرادی مثال ہے۔
اولا موبیلٹی انسٹی ٹیوٹ (Ola Mobility Institute) کے ذریعہ 2019میں کیے گئے ایک مطالعے میں ہندوستان کے گیارہ شہروں میں مردوں اور عورتوں کا سروے کیا گیا۔ اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسئولین میں سے 80% افراد، بس اسٹاپ سے محض 15منٹ کے پیدل فاصلے پر رہتے ہیں۔ صرف47% ایسے لوگ تھے جو یا تو پیدل یا سائیکل سے بس اسٹاپ جایا کرتے تھے۔ باقی افراد مشترکہ ٹرانسپورٹ، دوپہیوں یا کاروں سے جاتے تھے۔ مشترکہ ٹرانسپورٹ عام طور پر غیرمحفوظ پائے گئے ہیں۔ لیکن مخصوص فٹ پاتھوں یا سائیکل راستوں کی عدم موجودگی کے سبب عورتوں کے پاس ذریعۂ آمدورفت کے انتخاب کی گنجائش کم ہوتی ہے۔
باقی شہری مقامات میں، ہمیں عورتوں کے لیے مخصوص ٹرانسپورٹ سروسز کی سہولت دینے جیسی بے مصرف کوششوں سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے ہمیں مردوں کو یہ سکھانا بہتر ہوگا کہ وہ زیادہ بااخلاق اور باتمیز بنیں۔ پہلے ہی کئی جائزوں سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ ہندوستان میں مرد، عورتوں کے تئیں غیرمہذب سلوک کو ناپسند کرتے ہیں۔ 2015-16 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ 58%شوہر، بیویوں پر ہاتھ اٹھانے کے خیال کو مسترد کرتے ہیں۔ 2012میں، اقوام متحدہ خواتین (UN Women) نے دہلی میں خاندانوں سے متعلق ایک سروے کرایا تھا۔ اس سروے میں جب لوگوں سے عوامی مقامات پر جنسی تشدد کے بارے میں اُن کا ردّعمل دریافت کیا گیا تو 94%مردوں نے کہا کہ اگر عوامی مقامات پر جنسی ہراسانی کا واقعہ دیکھیں تو لوگوں کو مداخلت کرنی چاہیے۔ اس نیک خیال کو تقویت دینے اور اُسے مزاج میں داخل کرنے کی کوششیں ہونی چاہیے۔
دوسری ترجیح حفظان اطفال کی معتبر سہولتیں ہونی چاہیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عورتیں روزگار بازار میں داخل ہوں، ملازمتیں کریں اور تفریحی مشاغل میں بھی حصہ لیں تو بچوں کی بہتر نگہداشت کی سہولیات لازمی ہیں۔ عورتوں کو آزادی سے کام کرنے اور اُن کے مادرانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے لازمی ہے کہ پورے شہر میں کافی تعداد میں دارالاطفال(Creches) کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ جہاں تعمیرات کے کام چل رہے ہوں وہاں موبائل دارالاطفال کا نظم ہونا چاہیے۔
ماہر اقتصادیات اشونی دیش پانڈے کی حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ کووڈ-19وبا کے نتیجے میں، روزگار بازار میں وہ عورتیں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں جن کے پاس پانچ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ اپریل 2019میں، اس زمرے میں آنے والی عورتوں کے روزگار کا تناسب 7.8% تھا جو تیزی سے گھٹ کر اپریل 2020میں محض 2.9% رہ گیا۔ اگست 2020میں اس میں تھوڑی بہتری آئی اور یہ تناسب 3.5% ہوگیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ زمرہ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین پر مشتمل تھا جو سب سے زیادہ روزگار سے محروم ہوا۔
رپورٹ کے مطابق،جن خواتین کی تعلیم پوسٹ گریجویٹ سے بھی زیادہ تھی اور جن کے پانچ سال سے کم عمر کے بچے تھے، انہیں اپریل 2020میں اوسطاً سب سے زیادہ روزگار سے محرومی کا شکار ہونا پڑا۔ ورک فرام ہوم(گھر بیٹھ کر کام) کا چلن جب عام ہوا تو بھی گاج حوصلہ مند عورتوں پر ہی پڑی۔ ایک ذمہ دار ادارتی معاون اسٹرکچر، لیبرفورس میں عورتوں کی شمولیت کو بہتر بناسکتا ہے۔
نسبتاً چھوٹے شہروںمیں، پائلٹ پروجیکٹوں کے ذریعہ ایسی خامیوں کو دور کرنا عین ممکن ہے۔ اگر اس پر اچھی طرح عمل پیرا ہوسکیں تو ایسے منصوبے آبادی کو بڑے بڑے شہروں کی جانب جوق در جوق جانے سے روک سکنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ آج کے دور میں ہر کنبے میں سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ کسی جگہ جانے میں عورتوں کو کیا کیا خطرات لاحق ہوں گے اور وہ کس قدر محفوط ہوں گی۔ ایسے منصوبوں کو روبہ عمل لانے میں خطیر رقوم کی ضرورت نہیں ہے۔ شہری انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے کئی منصوبے ملک بھر میں جاری ہیں۔ انہیں آسانی سے جنسی تناظرات کا پاس و لحاظ رکھنے والا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔
شہروں کو خواتین موافق بنانے کے لیے ہمیں اور زیادہ غور وفکر اور ساتھ ہی ساتھ مزید قوت ارادی کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: دی ہندوستان ٹائمز)
(مضمون نگار ایک آئی اے ایس افسر ہیں اور فی الحال قومی کمیشن برائے خواتین کی ممبر سکریٹری ہیں۔ خواتین کے لیے ان کی بیش بہا فکرمندی کے ابلاغ اور ترویج کے لیے زیرنظر مضمون کی اشاعت کی جارہی ہے۔ ہم مضمون نگار کے شکرگزار ہیں۔
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS