تحریک سے نکلنے کا عمل

0

وبھوتی نارائن رائے

میرٹھ کی سردیاں تو ویسے ہی شدید ترین ہوتی ہیں، بالخصوص اگر گڑھوال کی پہاڑیوں پر برف باری ہوئی ہو۔ 1987کے نومبر-دسمبر بھی کوئی مستثنیٰ نہیں تھے۔ شہر ایک برے فرقہ وارانہ کشیدگی سے گزر چکا تھا اور اس کے اردگرد مغربی اترپردیش کے گنا پیدا کرنے والے کسانوں کے بیچ سے ایک نیا طوفان اٹھ رہا تھا اور سرد ماحول کو پھر گرمانے جارہا تھا۔ علاقہ کو مہیندر سنگھ ٹکیت نام سے ایک نئے کسان لیڈر مل گئے تھے، جوگاؤں والوں کی روزمرہ کو متاثر کرنے والی بجلی کی دستیابی اور اس کی شرحوں جیسے ایشوز پر مشتعل لاکھوں کسانوں کی بھیڑ لے کر میرٹھ پر چڑھ دوڑے تھے۔ یہ ایک دم نئے قسم کی تحریک تھی، جسے نہ تو مروجہ اصطلاحات میں میڈیا سمیت سیاسی تجزیہ کار اس کی وضاحت کرپارہے تھے اور نہ لاء اینڈ آرڈر نافذکرنے والی ایجنسیاں سمجھ پارہی تھیں کہ ضداور امن کی لائنیں وقت ضرورت لانگھتے ان کسانوں سے نمٹا کیسے جائے؟
ٹکیت کی قیادت والی اس تحریک میں کچھ بڑے بے چین کرنے والے مناظر بھی نظر آئے تھے۔ شدید ترین ٹھنڈ میں میرٹھ کمشنری کا محاصرہ کرکے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے کسانوں میں سے ایک-ایک کرکے کئی لوگ مرے اور دھرنے کے مقام پر ہی ان کی چتا بنی، لیکن کسان ڈٹے رہے۔ سب کچھ غیرمتوقع طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا تھا۔
ایک صبح اچانک ٹکیت نے اعلان کیا کہ وہ دھرنا ختم کرنے جارہے ہیں۔ جس طرح ٹکیت کی قیادت کا اُبھار روایتی سمجھ سے بالاتر تھا، اسی طرح بغیر کوئی مطالبہ پورا ہوئے دھرنے کے مقام کو چھوڑ کر اٹھ جانے کو بھی سمجھ کے کسی قائم خانہ میں رکھنا مشکل تھا۔ میں ان دنوں غازی آباد بارڈر میں تھا اور اپنی اکیڈمک اور پیشہ ورانہ دلچسپی کے سبب اکثر میرٹھ جایا کرتا تھا اور مجھے ٹکیت کے اُبھار کے ساتھ ساتھ اس تحریک پر پولیس اہلکاروں کے ردعمل کو دیکھنا دلچسپ لگتا تھا۔ اترپردیش کے کسی بھی علاقہ میں ذات بڑے معنی رکھتی ہے اور اسے بھلے ہی کسان تحریک کہا جارہا تھا، لیکن اس میں ایک ذات کے کسان بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور قیادت بھی خاص طور پر انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔ ٹکیت خود اپنی کھاپ کے چودھری تھے اور مغربی اترپردیش سے لے کر ہریانہ تک اس برادری میں ان کے اثر میں اضافہ ہورہا تھا۔ ان کے سامنے کھڑے پولیس اہلکاروں کے اندر چل رہی کشمکش کو بھی سمجھنا بہت مشکل نہیں تھا۔ زیادہ تر جوان گاؤوں سے آتے تھے، کھیتی سے ان کا خاندانی رشتہ تھا اور ایک بڑی تعداد تو ٹکیت کی برادری سے ہی تھی۔ ایسے میں ان کا حوصلہ قائم رکھنا اور ضرورت پڑنے پر مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے لیے حوصلہ افزائی کرنا پولیس قیادت کے لیے بڑا چیلنج جیسا تھا۔ اس وقت کی حکومت یہ چاہتی تھی کہ بغیر طاقت کا استعمال کیے دھرنا ختم کرایا جائے۔ مجھے دیکھ کر خوشی ہورہی تھی کہ ورگ اور ورن دونوں رکاوٹیں پار کرکے انہوں نے اپنا صبر قائم رکھتے ہوئے ٹکیت کو ہی تھکا دیا اور وہ تحریک ختم ہوگئی۔
1987 کے بعد سے دلّی کی یمنامیں بہت پانی بہہ چکا ہے، کئی کسان تحریکوں کی تپش راجدھانی جھیل چکی ہے اور ایک نئی کسان تحریک اس کی سرحد پر تیار ہے۔ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے، لیکن بہت کچھ پہلے جیسا ہی ہے۔ ایک تبدیلی تو کسانوں کی گاڑیوں اور پہناوے میں نظر آرہی ہے۔ تین دہائیوں میں حاصل خوشحالی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ ٹریکٹروں کے برابر ہی مہنگی کاریں بھی مناظر میں موجود ہیں، کسان ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے بھی زیادہ تیار لگ رہے ہیں۔ لیکن جو نہیں تبدیل ہوا، وہ ماہرین معاشیات کے لیے کم دلچسپ نہیں ہے۔ بالخصوص ہندوستانی سماج اور سیاست کے درمیان کے پیار اور نفرت والے تعلقات یہاں بھی ہیں۔ ٹکیت عوامی سطح پر سیاست اور سیاستدانوں کے تئیں اپنا عدم اعتماد ظاہر کرتے رہتے تھے۔ سیاست کی مخالفت ایک خاص طرح کی سیاست ہوتی ہے اور اس سیاست میں ملوث شخص اس کے خطرہ سے آزاد ہوکر امکانات کے دروازے کھولنا چاہتا ہے۔ 1987کی سردیوں میں میرٹھ کمشنری کے باہر جمع کسانوں کی بھیڑ دیکھ کر مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ بھیڑ جمع کرنے والے نہیں جانتے ہیں کہ اسے کس طرح اور کس موقع پر ختم کرنا ہے۔ صرف تجربہ کار سیاست کا کھلاڑی ہی جانتا ہے کہ کسی بہت بڑے جھنڈ سے عزت کے ساتھ باہر نکلنا کیسے ہوسکتا ہے۔ بھیڑجمع کرنے سے کم اہم اسے بروقت ختم کرانا نہیں ہے۔ سیاست کی مخالفت کرنے والے ٹکیت یہ نہیں جانتے تھے اور اچانک انہوں نے تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا اور اٹھ کر چل دیے۔
اس مرتبہ بھی کسانوں نے اجتماعات میں سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے داخلہ پر پابند عائد کررکھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا پر جو لوگ ان کی نمائندگی کررہے ہیں، ان میں سے کئی سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ لوک سبھا یا اسمبلیوں میں داخل ہونے کی کوشش کرچکے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کے الگ الگ برسراقتدار پارٹیوں کی حکمت عملی بھی تحریک میں واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ سیاست کی مخالفت کی سیاست کتنی کارگر ہوگی، یہ تو اگلے کچھ دنوں میں واضح ہوگی، لیکن یہ کسان رائے دہندگان کی انتخابی طاقت ہی ہے، جس نے مرکزی حکومت کو بار بار اپنی حالت بدلنے کے لیے مجبور کیا ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے کسانوں کو ملنے کا وقت نہ دینے والے زرعی وزیر اب ان سے میز پر بیٹھنے کی منتیں کررہے ہیں۔ دلّی میں انہیں گھسنے نہ دینے کے لیے پہلے سڑکیں کھودی گئیں، راستہ روکنے کے لیے ٹرک کھڑے کیے گئے اور پھر جھکتے ہوئے اندر ایک میدان انہیں الاٹ کرنے کی کوشش ہوئی۔
کسانوں کے مطالبات یا سرکاری ضدپر تبصرہ کیے بغیر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سارے تنازعات سیاسی ہیں اور ان کا حل بھی سیاست کی قائم روایت یعنی بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ حکومت کو کسانوں کے بیٹوں سے ہی ان پر لاٹھی-گولی چلوا کر انہیں کچلنے کی کوشش قطعی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو کبھی بھی الٹا پڑسکتا ہے۔ کسان لیڈروں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ بات چیت کی پرانی اصطلاحات اب ساتھ نہیں دیں گی۔ ہر کامیاب تحریک کی طرح اس مرتبہ بھی باہر نکلنے کے لیے انہیں ایک پروقار راستہ کھلا رکھنا ہوگا، نہیں تو 1987کی طرح کوئی ٹکیت ڈیرا-ڈنڈا اٹھاکر چل دے گا اور وہ ٹھگے کھڑے رہ جائیں گے۔ انہیں سیاست کی مخالفت نہ کرکے عوامی وکالت اور ذاتوں کے مقام پر طبقاتی مفادات کے لیے صف آرا ہونے والی سیاست کی حمایت کرنی ہوگی۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS