زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

0

میدان سیاست میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ حکمراں اور حزب اختلاف دونوں کے سپاہی ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہیں۔ ہر کمانڈر خود کو صف شکن ثابت کرنے پر تلاہوا ہے۔ کچھ تو ایسے ہیں جو حیا باختگی کی انتہا ئوں کو چھو رہے ہیں۔ جھوٹ، تہمت، الزام تراشی، لاف زنی، حقائق سے عاری بیانات کی لگام تھامے آئین، قانون، اخلاق، تہذیب، مروت سب کو کچلتے ہوئے عروس اقتدار تک پہنچنے کی ٹھان چکے ہیں۔ آدھا سچ اور آدھے جھوٹ کے مرکب سے تیار ان کی افسانہ طرازی اور جھوٹ کا طومار عوام الناس میں بیک وقت غم و غصہ کی کیفیت پیدا کررہی ہے تو کہیں صرف اشتعال کی لہر دوڑارہی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ تقریریں صدمے سے دوچار کررہی ہیں۔

ہندوستانی سیاست کے مردآتش بجاں اور اپنے گفتارو عمل سے دنیا کو متحیر کردینے کی ناقابل یقین صلاحیتوں کے مالک ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی کل ایک ایسی ہی تقریر کی جس نے ہندوستان کے عوام کو حیرت زدہ کردیا۔ تلنگانہ کے کریم نگر میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ویسے تو کئی باتیں کہیں،سیم پترودا پر الزامات لگائے جوممکن ہے کسی حد تک درست ہوں۔ ریاست کی سیاسی جماعت اور کبھی بی جے پی کی حلیف رہ چکی بی آر ایس پر بدعنوانی کے الزامات لگائے، ممکن ہے یہ بھی درست ہو۔لیکن اسی تقریر کے دوران انہوں نے پہلی بار ’والیان نعمت‘ کاذکر کیا اور کچھ اس ادا سے کیا کہ نطق بھی سربہ گریباںہوگیا۔ وزیراعظم نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 5برسوں سے کانگریس کے شہزادے دن رات ایک ہی مالا جپتے تھے، صنعتکار اڈانی اور امبانی۔ دن میں کئی بار اڈانی-امبانی کا نام لیتے تھے۔لیکن جب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے، انہوں نے امبانی-اڈانی کو گالی دینا بند کر دیا ہے… کیوں ؟ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ کانگریس کے شہزادے سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس نے (راہل گاندھی نے)اڈانی اور امبانی سے کتنا مال اٹھایا ہے؟ کیا راتوں رات سودا ہوا یا نوٹ کی بوریاںان تک پہنچ گئی ہیں؟ کالا دھن کے بورے بھر کے روپے لیے ہیں؟ کانگریس پارٹی کو ان صنعتکاروں سے الیکشن کیلئے کتنی رقم ملی ہے؟ کیا ٹیمپو بھرکر مال پہنچا ہے؟

وزیراعظم نے جس ’ مضحکہ خیز ‘ اور ’ متضاد‘طریقہ سے ان دونوں صنعت کاروں کا نام لیا ہے، اس نے عوا م کو الجھا دیا ہے، وہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ وزیراعظم کا روئے سخن کس جانب ہے، کیا وہ اپنی تقریر کے ذریعہ راہل گاندھی پر بدعنوانی کا الزام لگارہے ہیں یا پھر اپنے ’والیان نعمت‘ سے شکوہ سنج ہیں؟ یہ الجھن اس لیے بھی سوا ہوئی جاتی ہے کہ اپنے دس برسوں کی مدت کار میں حزب اختلاف کے بار بار کے اصرار کے باوجود وزیراعظم اس موضوع پر لب بستہ رہے۔ ایوان میں راہل گاندھی کے ذریعہ وزیراعظم مودی کی صنعت کار گوتم اڈانی کے ساتھ تصویر لہرانے اور ان سے رشتہ پوچھنے کے باوجود انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی، نہ ہی وضاحت کی کہ وہ تصویر کب، کہاں اور کس حالت میں لی گئی ہے۔راہل گاندھی کی ’ بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران بھی وزیراعظم مودی کے صنعتکاروںکے ساتھ تعلقات اور ان کیلئے بنائی جانے والی پالیسیوں کاذکرپورے ہندوستان میں ہوا،تو بھی وہ خاموش رہے۔ اس کے برخلاف صنعت کار گوتم اڈانی سے اپنے تعلقات اور مراسم کا ثبوت وہ اپنے عمل کے ذریعہ دیتے رہے۔گوتم اڈانی کی دولت میں بے پناہ اضافہ میں حکومت کی مہربانیوں کے الزامات کا جواب دینے کیلئے ان کی کابینہ سامنے آئی۔ ہنڈن برگ انکشافات اور حصص کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کے الزامات کی صفائی مودی کابینہ نے دی یعنی معاملہ یہاں تک تھاکہ بقول شاعر ؎
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

اب اچانک تلنگانہ کے کریم نگر میں وزیراعظم نے کانگریس اور راہل گاندھی کو نشانہ بنانے کیلئے ان دونوں سرمایہ داروں کا نام لیا ہے۔ کیا اس سے یہ سمجھاجائے کہ واقعی ’ دوست ’دوست‘ نہ رہا‘۔

درحقیقت معاملہ اس کے برخلاف ہے، صنعت کاروں سے دوستی اور مراسم اب بھی برقرار ہیں لیکن تعلقات کے طشت ازبام ہوجانے کی وجہ سے عوام میں ناراضگی پیدا ہوچلی ہے اوراپنی اس ناراضگی کا اظہار عوام نے تین مرحلوں میں ہوئی پولنگ میں کردیا ہے، شکست کے آثار واضح ہوگئے ہیں،نوشتہ دیوار بھی نظرآنے لگا ہے۔ایسے میں اچھے اچھے تجربہ کار جنگجو اور ماہر کمانڈر بھی اوسان ہار جاتے ہیں، وزیراعظم مودی بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ کریم نگر میں ان کی تقریر اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے ورنہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیا ں ہے کہ انتخابی چندے کس سیاسی جماعت نے کس صنعت کارا ور سرمایہ دار سے لیے ہیں۔اور یہ بھی دنیا جانتی ہے کہ راہل گاندھی اپنی تقریروں میں اب تک 103 بار اڈانی اور 30بار امبانی کا نام لے چکے ہیں۔ جس کی یاددہانی کانگریس ترجمان جے رام رمیش نے اپنے بیان سے بھی کرائی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کریم نگر میں کی گئی مودی جی کی یہ تقریر اگلے چار مرحلوں کی پولنگ میں بی جے پی کو کیا فائدہ پہنچاتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS