سپریم کورٹ اور شریک حیات منتخب کرنے کا حق

0

عبدالحفیظ گاندھی

اپنی مرضی اور پسند سے شادی کرنا کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ دو افراد کی شادی ان کا ذاتی فیصلہ ہے لہٰذا معاشرے کو اس فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔ بالغ لوگ اگر اپنی پسند سے شادی کرتے ہیں تو والدین اور حکومت مداخلت نہیں کرسکتے۔ بالغ لوگوں کو شادی کا فیصلہ کرنے کی آزادی ہے۔ اس آزادی کا استعمال وہ بین ذات پات یا بین مذہبی شادی کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے بھی8؍فروری2021کو اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ بالغ افراد کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کا حق ہے۔ عدالت نے کہا کہ وقت آگیا ہے جب معاشرہ بین ذات پات اور بین مذہبی شادیوں کو قبول کرے اور ان شادیاں کرنے والوں کو پریشان نہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے معاملے میں آیا ہے جو ریاست کرناٹک سے سپریم کورٹ پہنچا تھا جہاں دو مختلف ذات کے ہندو بالغ افراد نے شادی کی تھی۔ لڑکی کی فیملی نے گمشدگی کی رپورٹ لکھوائی جسے بعد میں ایف آئی آر میں تبدیل کردیا گیا۔ زوجین نے سپریم کورٹ میں تحفظ فراہم کرنے اور ایف آئی آر رد کرنے کے لیے عرضی لگائی۔ اسی عرضی پر سنوائی کے بعد سپریم کورٹ نے ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کو تربیت دی جانی چاہیے اور رہنما اصول بنائے جائیں تاکہ پولیس بین ذات پات یا بین المذاہب شادیوں میں حساسیت سے پولیس سلوک کرے اور زوجین کو پولیس تحفظ دیا جاسکے۔
عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اب تعلیم یافتہ نوجوان اپنی مرضی سے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ بات معاشرے میں رائج رواج سے مختلف ہے۔ معاشرہ اسے ناپسند کرسکتا ہے اس لیے یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ شادی شدہ جوڑے کو وہ تحفظ فراہم کرے۔
معاشرے کے روایتی ڈھانچے ، ذات پات کے نظام اور مذہبی تعصب کی وجہ سے بیشتر خاندانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہب اور ذات میں ہی بچوں کی شادی کریں۔ اگر بچے ذات یا مذہب کے باہر جاکر شادی کرتے ہیں تو پھر کنبہ اور معاشرہ اسے بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ متعدد بار والدین جھوٹی ایف آئی آر درج کرادیتے ہیں اور شادی شدہ جوڑے کو اِدھر-اُدھر بھاگ کر اپنی جان بچانی پڑتی ہے۔ زوجین کو غیرت( آنر کلنگ) کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے اور جو زندہ رہتے ہیں، انہیں ان کے اہل خانہ قبول نہیں کرتے۔
جب ایک ہی مذہب کے دو بالغ افراد شادی کرتے ہیں تو یہ شادی ان کے پرسنل لاء کے تحت ہوتی ہے۔ جوڑا ہندو ہے تو ہندو لاء اور مسلم ہے تو مسلم لاء میں شادی ہوگی۔ ان پرسنل لاء میں کہیں بھی شادی کے لیے والدین کی رضامندی کا کوئی التزام نہیں ہے۔اگر شادی کرنے والے مختلف الگ الگ مذہب کے ہوں تو شادی اسپیشل میرج ایکٹ- 1954 کے تحت ہوتی ہے۔اس ایکٹ میں بھی شادی کے لیے والدین کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ ہی پرسنل لاء میں اور نہ ہی اسپیشل میرج ایکٹ- 1954 میں شادی کے لیے والدین کی رضامندی کا کوئی ذکر ہے۔ شادی سے وابستہ ہر قانون میں صرف اور صرف جوڑے کی رضامندی معنی رکھتی ہے۔ پھر کیوں بین ذات اور بین مذاہب شادیوں میں جوڑے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جواب ہمارے معاشرہ کی بناوٹ میں ہے۔ معاشرہ میں مذہب اور ذات کے نام پر امتیاز ہے، اونچ-نیچ ہے، اسی وجہ سے مذہب اور ذات سے باہر شادیوں کو معاشرہ مناسب نہیں سمجھتا۔ معاشرہ کی یہ سوچ آئین میں دیے گئے برابری کے حقوق کے خلاف ہے۔ معاشرہ کی سوچ آئین کے حساب سے بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک بات غور کرنے والی ہے کہ موجودہ معاملے میں کرناٹک پولیس نے ابھی تک لڑکی کا بیان قلمبند نہیں کیا ہے اور اس وجہ سے تفتیش نامکمل ہے۔ تفتیش اس بات کی ہونی ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے کہ نہیں۔ ایسے میں لڑکی اگر پولیس اسٹیشن گئی ہوتی تو اس پر فیملی کے ذریعہ دباؤ بنایا جاسکتا تھا۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ لڑکی کی پسند کی جگہ اس کے بیان پولیس آکر لے لیتی۔ تاہم اس معاملے میں لڑکی نے پولیس کو لیٹر بھی لکھے اور میرج سرٹیفکیٹ بھی ارسال کیا۔ اس سے مطمئن ہوکر تفتیش مکمل کرکے پولیس کہہ سکتی تھی کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کرناٹک حکومت کے وکیل سے بھی یہی پوچھا کہ پولیس نے لڑکی سے اس کی پسند کے بارے میں پوچھ گچھ کیوں نہیں کی؟
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب متعدد ریاستی حکومتوں نے بین مذہبی شادیوں سے متعلق قوانین نافذ کیے ہیں۔ کئی ریاستی حکومتیں اس ضمن میں قانون لانے کی بھی تیاری کررہی ہیں۔ اترپردیش، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش قانون بناچکی ہیں۔ گجرات حکومت بھی اس سلسلے میں ایک قانون لانا چاہتی تھی، لیکن قانونی صلاح لینے کے بعد ابھی قانون کو گجرات حکومت نے کچھ عرصے کے لیے ملتوی کردیا ہے۔ پہلے ہی تبدیلیٔ مذہب سے متعلق ایک قانون گجرات میں نافذ ہے۔
اتر پردیش میں مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے پر پابندی لگانے والے قانون کو الٰہ آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار سے کہا کہ اس قانون کو پہلے ہی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاچکا ہے لہٰذا اس معاملے میں ہائی کورٹ کو پہلے فیصلہ کرنے دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کا فائدہ سپریم کورٹ کو بھی ملے گا اگر مستقبل میں اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاتا ہے تو ۔
ریاست کرناٹک سے آئے موجودہ بین ذات شادی کے معاملے میں سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے سے ایک بات تو واضح ہے کہ اب الٰہ آباد ہائی کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا وہ فیصلہ سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ کو دھیان میں رکھ کر ہی دے گا۔
تاہم الٰہ آباد ہائی کورٹ پہلے بھی متعدد مواقع پر بین مذہبی اور بین ذات شادیوں سے متعلق فیصلے دے چکا ہے۔ ان فیصلوں میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اعتراف کیا ہے کہ شادی ایک ذاتی فیصلہ ہے اور اس میں کنبہ یا حکومت کی کوئی مداخلت نہیں ہوسکتی۔ زیادہ تر معاملات میں عدالت نے شادی شدہ جوڑوں کو تحفظ بھی فراہم کرایا۔ میرے مطابق بین المذاہب شادی قانونی لحاظ سے صحیح ہوتی ہے۔ دونوں افراد اپنے اپنے مذاہب کے مطابق اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ چونکہ یہ شادی اسپیشل میرج ایکٹ-1954میں رجسٹرڈ ہوتی ہے ، لہٰذا ان دونوں افراد پر ان کے پرسنل لاء نافذ نہیں ہوں گے۔ ان لوگوں پر religious neutral lawsنافذ ہوں گے، چاہے طلاق ہو، وراثت ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔
جہاں تک بین ذات اور بین المذاہب شادیوں سے پیدا بچوں کا سوال ہے، اس بارے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کچھ فیصلے ہیں، جن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ بین ذات پات کی شادیوں میں بچے اس ذات کے کہلائیں گے جس ذات کے مطابق ان کی پرورش ہوئی ہے۔ کچھ معاملات میں سپریم کورٹ نے والد کی ذات کو بچوں کی ذات تسلیم کیا اور کچھ معاملات میں والدہ کی ذات کو بچوں کی ذات مانا۔ سپریم کورٹ نے ان فیصلوں میں مشاہدہ کیا کہ بچے کی پرورش کس کی ذات کے مطابق ہوئی ہے-ماں یا باپ کے اور بچوں نے وہ تمام پریشانیاں اور امتیازی سلوک برداشت کیا ہے جو عام طور پر اس ذات کے لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک سوال بین مذہبی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچوں کا ہے، اس متعلق بامبے ہائی کورٹ نے 2016 میں ایک فیصلہ دیا تھا جس میں عدالت نے کہا تھا کہ بچوں پر مذہب مسلط نہیں کیا جانا چاہیے۔ اچھا یہ ہے کہ دونوں ماں-باپ کی روایات اور مذاہب کے بارے میں بچوں کو بتایا جائے یا کس مذہب کو اپنانا ہے، یہ بچوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ جب بچے بالغ ہوں گے تو وہ اپنے مذہب کا انتخاب کرلیں گے۔
بین ذات اور بین مذہبی شادیوں سے متعلق آئینی موقف واضح ہے۔ ان شادیوں میں حکومت اور فیملی کوئی مداخلت نہیں کرسکتے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں ان شادیوں کو کم ہی قبول کیا جاتا ہے۔ کرناٹک میں ہوئی بین ذات کی شادی کے موجودہ معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ان شادیوں میں فیملی رکاوٹیں پیدا نہیں کریں گی اور شادی شدہ جوڑے کو قبول کریں گی۔ وقت آگیا ہے کہ معاشرہ اپنی سوچ تبدیل کرے۔ جیسے جیسے لوگ بیدار ہوں گے، ان شادیوں کے رواج میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS