اسلام پر اعتراضات کا رد سنجیدگی سے کرنا ہوگا

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

دین ومذہب کا تعلق بنیادی طور پر نوع انسانیت سے وابستہ ہے۔ کسی بھی مذہب کا فلسفہ اور مقصدیت کا انحصار اس پر ہے کہ جس مذہب و دھرم نے جو باتیں انسانیت کی فلاح وبہبود اور کامیابی و کامرانی کے لیے بتائی ہیں، انسانیت کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دھرم کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں۔ البتہ جن چیزوں کو موجب ہلاکت و تباہی سے تعبیر کیا ہے، ان سے حتی المقدور پرہیز کیا جائے۔ اسی کے ساتھ مذاہب کی تعلیمات نوع انسانی کے ذہن ودماغ کو براہ راست اپیل کرتی ہیں۔ اس کی شہادت اس وقت ملتی ہے جب ہم دینی احکامات، اوامر و نواہی اور تعلیمات و ارشادات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ دین اسلام میں بیشتر مقامات پر انسانی سماج کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کو اصل مقصد کی طرف بارہا متوجہ کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ جو حدود وقیود متعین کی گئی ہیں ان سے تجاوز کرنا یا ان کو جان بوجھ کر ترک کرنا افراد انسانی کے تئیں نقصان وخسارے کا باعث ہے۔ اسلام آ فاقی اور عالمگیر دین ہے۔ کیونکہ اسلام نے جہاں یایہاالذین آ منوا سے مسلم کمیونٹی کو خطاب کیا ہے وہیں ان گنت مقامات پر یا ایہا الناس سے خطاب کرکے اس بات کا اعلان و اظہار کیا ہے کہ اسلام کی تعلیمات اور اس کے مخاطبین روئے زمین پر وقوع پذیر تمام انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسانی ہمدردی، سماجی خدمات، خوش خوئی، نرم گفتاری، حسن خلق، جیسی مقدس اور پاکیزہ تعلیمات میں کوئی تفریق و امتیاز نہیں کی ہے۔بلکہ  اپنے متبعین کو یہ ہدایت کی ہے کہ کسی بھی سماج یا دین و دھرم سے وابستہ فرد وجماعت تم سے ہم کلام ہو یا باہم کوئی معاملہ درکار ہو، اجنبی ہو یا شناسائی ہو، ہر کسی سے توازن ویکسا نیت اور خندہ پیشانی سے پیش آ ؤ۔ در اصل اسلامی تعلیمات کی یہ وہ روحانی قدریں ہیں جن کی بدولت ہم پوری دنیا کی نظروں میں سرخ رو تھے۔ تہذیبی تحفظ اور انسانی برتری کی بے مثال تعلیمات اسلام نے سکھائی ہیں۔ یہی چیزیں ہمیں تمام دنیا سے ممتاز کرتی تھیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جب سے ہمارے اندر سے یہ صفات و خصال مفقود ہوئی ہیں تب سے ہم کو کچھ قومیں اور معاشرے بری نظروں سے دیکھتے ہیں اس لیے ہمیں اپنے رویہ میں بھاری مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہمارا اپنا معیار اور سابقہ عظمت کی بحالی کس طرح ہو۔
عالمی تناظر میں موجود حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آ ج ہر طرف سے اسلام پر یلغار ہے۔ ہر روز اسلام کے خلاف نت نئے پرو پیگنڈے ایجاد ہوتے ہیں۔ اس کے لیے مخالفین ذرائع ابلاغ سے لے کر ادب و لٹریچر تک کا استعمال کررہے ہیں۔ باقاعدہ انہوں نے اسی مقصد کے تحت ادارے قائم کر رکھے ہیں جو عوام کو اسلام کے خلاف بد ظن کررہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام باطل پروپیگنڈوں کا انتہائی علمی اور سلیقہ سے جواب دینا ہوگا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ آ ج اسلام کی غلط تعبیر و تشریح وہ لوگ پیش کررہے ہیں جو ہماری صفوں میں ہیں۔ اسلام کا ہر پیغام اور ہر تعلیم آ فاقی ہے مگر ہمارے رویے  اور کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کسی خاص مسلک و مشرب کی نمائندگی کرنے کے لیے آ یا ہے۔ اسلام کے آ فاقی اور عالم گیر پیغام کو کہیں نہ کہیں ہم اپنے خود ساختہ فرقوں اور محدود مفادات کی وجہ سے دھندلا کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی بہت سے افراد شکوک و شبہات میں مبتلا ہورہے ہیں اور معاشرے میں یہ روش بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ لہٰذا ان نظریات و افکار پر نہ صرف قدغن لگانے کی ضرورت ہے بلکہ اسی کے ساتھ دین اسلام کی درست تعبیر و تشریح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آج معاشرے کا اکثر طبقہ قرآن پاک کو صرف تبرک کی کتاب سمجھتا ہے۔ اس کے لیے وہ یہ ضروری سمجھتا ہے کہ قرآن خوانی کرالی جائے یا کوئی وظیفہ کرا لیا جائے یا کسی خاص موقع پر اس کی مخصوص سورتوں کی تلاوت کرلی جائے، انہی رسم ورواج کو ادا کرنے سے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کا حق ادا ہوگیا۔ یہ سوچ و نظریہ اس حد تک راسخ ہوچکا ہے کہ اب سماج میں اس کے خلاف آواز اٹھانے کو باعث عیب اور گناہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ قرآن کریم کا جو اصل مقصد تھا وہ کہیں نہ کہیں بھلا دیا گیا ۔ جبکہ خود قرآن کریم تدبر، تفکر اور تعقل کی پر زور دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا جو عمومی رجحان ہمارے سماج میں قرآن پاک کو لے کر پیدا ہوا ہے، اس کی اہمیت و افادیت کو کم کرنے کے لیے موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ عوام کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ قرآن پاک انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ نوع انسانی کو عظمت و تقدس کی اعلیٰ منازل ومناصب پر متمکن کرتا ہے۔ لیکن اس وقت جب اس میں غور و فکر کیا جائے اس کا جو بنیادی حق ہے اس کو ادا کیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا آ ج اچھا خاصا طبقہ اپنی کتاب ہدایت کے سمجھنے سے نہ صرف کوسوں دور ہے بلکہ اس کے ذہن میں شاید یہ خیال گزرتا ہو کہ یہ وہ کتاب ہے جو ہماری دنیا اور آخرت میں فلاح و بہبود کا ذریعہ ہے۔ اب خواص کو اس طرف تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ عوام کے مابین قرآن حکیم کی مقصدیت کو اجاگر کریں ۔ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ لٹریچر تیار کرکے عوام میں شائع کیا جائے۔ منصوبہ بند طریقے سے کام کیا جائے گا تو یقینا عوام میں بیداری پیدا ہوگی۔
اسلام نے ظلم کے خلاف آ واز اٹھانے، عدل و انصاف قائم کرنے اور معاشرے میں ہم آ ہنگی و رواداری کی پر زور تعلیم دی ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ اسلام پر الزام و اتہام کرتے ہیں۔ خیر آ ج کے اس سائنسی اور تجرباتی دور میں اگر کوئی چیز انسانیت کو اس کے فرائض و ذمہ داریوں سے واقف کراسکتی ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہے۔ ذہن و فکر کی درست رہنمائی اور عقیدہ و خیال کی پاکیزہ اصلاح کے لیے ہر دور اور ہر زمانے میں اسلام نے انسانیت کی رہنمائی کی ہے۔ ہم آ ج جن خطوط پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں، اپنی اس روز مرہ کی زندگی کا موازنہ ہمیں اسلام کی تعلیمات سے کرنا ہوگا۔ چاہے ہم کہیں بھی رہیں، ہمارا تعلق کسی بھی قوم و معاشرے سے ہو،ہر حال میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمارے کسی بھی عمل سے لوگوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع تو نہیں مل رہا ہے۔
آخری بات یہ کہ اسلام ایک مکمل دستور حیات اور نظام زندگی ہے۔ یہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔ سیاست و امامت، تجارت و زراعت سے لے کر کوئی ایسا شعبہ زندگی نہیں ہے جہاں اسلام نوع انسانی کی رہنمائی نہ کرتا ہو۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تعبیر و تشریح کریں۔ نہ کہ اپنے مسلک و مشرب کے اعتبار سے اسلام کی وضاحت کریں۔ آ ج جتنا نقصان اندرونی رویوں اور اسالیب نے مسلم کمیونٹی کو پہنچایا ہے، اتنا بیرونی طاقتوں نے بھی نہیں پہنچایا۔ اس نکتہ پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ یہ بھی خیال رہے کہ معاندین کا کام صرف الزام عائد کرنے کا ہے ۔ البتہ ہم کو تعلیم و تربیت سے لیس ہوکر کام کرنا ہوگا اور اسلام کے حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا سنجیدگی سے جواب دینا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود اسلام کی آ فاقیت کو اپنے کردار وعمل سے ظاہر کریں۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ اسلام دہشت کی تعلیم نہیں دیتا ہے بلکہ امن و امان اور رواداری و توازن کی حمایت کرتا ہے۔ مخلوط سماج کا زبردست حامی ہے۔ اس کے باوجود کبھی وہ حضرت محمد مصطفیؐ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہیں اور کبھی اسلام کو بدامنی جیسی سنگین تعلیم سے جوڑنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تمام حقائق و شواہد کے جاننے کے باوجود کوئی اگر اسلام پر اعتراضات کرتا ہے تواس کا اپنا مقصد ہے۔ اس کے پس پردہ اس کے عزائم ہیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اسلام پر اٹھنے والے کسی بھی اعتراض کا جواب نہایت علمی انداز میں دیں ۔ معاشروں کا توازن جب بگڑتا ہے تب ہم جذبات میں آکر اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS