زندگی اور جیب کے مطابق ہو سفر

0

سدھیر بادامی

گزشتہ سال 4؍اکتوبر کو بڑے زور شور سے ملک کی پہلی ’کارپوریٹ‘ ٹرین تیجس کو پٹری پر اتارا گیا تھا۔ یہ لکھنؤ اور نئی دہلی کے درمیان دوڑ رہی تھی، جب کہ اس سال17جنوری کو احمدآباد اور ممبئی کے درمیان دوسری تیجس خدمت شروع کی گئی۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے صحت مند مقابلہ کا ماحول بنے گا اور انڈین ریلوے سروس کو نئی شکل دی جائے گی۔ مگر اب ان ٹرینوں کو جاری نہ رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ مسافروں کی کم ہوتی تعداد کو دیکھتے ہوئے ایسا کیا گیا ہے، جس کا ٹھیکرا کووڈ-19وبا پر پھوڑا جارہا ہے۔ مگر تیجس کے اب تک کے سفر کو دیکھیں تو اس کا یہ انجام یقینی تھا۔
بیشک پہلے ماہ میں لکھنؤ تیجس سے تقریباً 70لاکھ روپے فائدہ کمانے کی خبریں آئیں، لیکن بعد کے دنوں میں یہ ٹرین خسارہ میں ہی رہی۔ احمدآباد تیجس کی کہانی بھی کم و بیش یہی کہی جائے گی۔ یہ حالت اس لیے بن گئی تھی، کیوں کہ ان میں سفر کی قیمت عوامی ٹرین خدمات سے کافی زیادہ تھی۔ رہی سہی کسر کورونا وبا نے پوری کردی۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے پہلے جہاں یہ اپنی کل صلاحیت کے مقابلہ 50-80فیصد مسافروں کو لے کر دوڑا کرتی تھیں، تو وہیں کورونا دور میں یہ تعداد کم ہوکر 24سے 40فیصد رہ گئی تھی۔ ظاہر ہے، کسی پرائیویٹ کمپنی کے لیے یہ خسارہ مسلسل برداشت کرنا مشکل تھا، لہٰذا ان ٹرینوں کی آپریٹنگ بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔
ممکن ہے کہ آنے والے مہینوں میں تیجس کی پھر سے شروعات ہوجائے، لیکن اس نے کئی ضروری سبق ہمارے پالیسی سازوں کو دیے ہیں۔ پہلا پیغام تو یہی ہے کہ جس ملک میں 25.7فیصد دیہی آبادی اور 13.7فیصد شہری آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتی ہو، اور جہاں کورونا وبا میں 80کروڑ لوگوں کو مفت اناج پہنچانے کی مجبوری ہو، وہاں پر ایسی مہنگی خدمات کا تصور نہیں کیا جاسکتا، جوزیادہ تر لوگوں کی پہنچ سے دور ہو۔ سچ یہی ہے کہ آج بھی ملک میں کئی لوگوں کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ سہولتوں سے مزین سفر کا لطف لے سکیں۔ خرچ کے مقابلہ میں کم کرایہ وصول کرکے انڈین ریلوے ان کی مشکلیں کم کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو شہروں میں انتہائی محنت کرتے ہیں اور اپنے کنبے کو گاؤں میں رکھتے ہیں۔ جب ان لوگوں کے پاس عام ٹکٹ خریدنے کے ہی پیسے نہیں ہیں تو بھلا تیجس جیسی پریمیم ٹرین کے ٹکٹ کیسے خرید سکیں گے؟
ٹرانسپورٹیشن کے دو ضروری پہلو ہوتے ہیں۔ ایک، وہ محفوظ ہونا چاہیے اور دوسرا، اس کی قیمت واجب ہونی چاہیے۔ پرائیویٹ خدمات محفوظ تو ہوسکتی ہیں اور سہولتوں سے مزین بھی، لیکن ان کی قیمت بھی واجب ہو، اس کی گارنٹی نہیں ہے۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ انڈین ریلوے خسارہ میں رہتی ہے، اس لیے کچھ خدمات کو پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنا ضروری ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں رکھتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب معذوروں کو ریل کے سفر میں سہولتیں دینے سے متعلق پی آئی ایل داخل کیا گیا تھا، تب جو کمیٹی بنائی گئی تھی، اس میں میں شامل تھا۔ تمام دلیلوں کے بعد جب اتفاق رائے ہوا تو ریلوے کے پاس ضروری پیسہ بھی آگیا۔ اسی طرح جب وزیراعظم نریندر مودی نے غیرفعال الفاظ گڑھے، تب بھی ریلوے میں ان کے لیے اضافی فنڈ جٹائے گئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ریلوے کے پاس کافی پیسے ہیں، مگر ہاں، حکومت کے پاس ایسے کئی ذرائع ہیں جہاں سے پیسے اکٹھے کیے جاسکتے ہیں۔ اسی لیے میں ایئرانڈیا کو فروخت کرنے کے بھی خلاف ہوں۔ پبلک سیکٹر کی یہ ایوی ایشن سروس تقریباً 60ہزار کروڑ روپے کے قرض میں ڈوبی ہے۔ حکومت چاہے تو ان پیسوں کا بندوبست کرسکتی ہے۔ آخرکار پرائیوٹ ایوی ایشن کمپنیوں کو عام آدمی کے ٹیکس کا پیسہ بطور بیل آؤٹ دیا ہی جاتا ہے۔ تو پھر مہاراجہ کو چلانے کے لیے قوت ارادی کیوں نہیں دکھائی جاتی؟
اپنے یہاں ٹریفک خدمات کے پرائیوٹائزیشن کا جو حشر ہوا ہے، اسے دیکھتے ہوئے بلیٹ ٹرین کو لے کر بھی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ(پی پی پی) کے تحت حکومت اس منصوبہ پر آگے بڑھ رہی ہے۔ مگر پی پی پی کو پی پی پی پی پی کہنا زیادہ مناسب ہوگا، یعنی پرائیویٹ کمپنی کا سرکاری املاک پر خصوصی حق(پریویلیج آف پبلک پراپرٹی بائے پرائیویٹ پارٹی)۔ پھر ہندوستان میں ریلوے سروس محض نقل و حمل کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعہ سے جو معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اس سے بھی حکومت کو بالواسطہ طور پر فائدہ ملتا ہے۔ اسی وجہ سے تو وہ مسافروں کو سبسڈی بھی دیتی ہے۔ جب کہ پرائیویٹ کمپنیوں کے لیے یہ صرف پیسے بنانے کا ذریعہ ہے۔ اگر انہیں فائدہ نہیں ہوگا تو وہ فوراً اپنے ہاتھ کھینچ لیں گی۔ دہلی میں میٹرو ایکسپریس لائن میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک پرائیویٹ کمپنی خسارہ کا رونا روکر اس سے الگ ہوگئی اور سارا بوجھ ڈی ایم آر سی کے کندھوں پر آگیا۔
پرائیوٹائزیشن کے حق میں دیا جانے والا یہ جواز بھی مناسب نہیں لگتا کہ پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین مقابلتاً بہتر کام کرتے ہیں۔ دہلی میٹرو کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہاں کام کرنے والے زیادہ تر انجینئر انڈین ریلوے سے بلائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ملازمین تو وہی ہوتے ہیں، کام کرنے کی ان کی صلاحیت بھی برابر ہوتی ہے، صرف انہیں ہدایت دینے والے ہاتھ بدل جاتے ہیں، یعنی اگر سرکاری سیکٹر کی کمپنیوں کے طریق کار کو درست کردیا جائے تو یہاں بھی پرائیوٹ سیکٹر کی طرح ’اچھے‘ طریقہ سے کام ہوسکے گا۔
بہرحال کسی بھی جمہوریت میں حکومت کا مقصد عام زندگی کو سدھارنا ہوتا ہے۔ اس میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لوگوںکو جب معیاری زندگی ملتی ہے تو انہیں بہتر کام کاج بھی ملنے لگتا ہے۔ اس طرح ایک بڑی سماجی تبدیلی ہوتی ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں اس سماجی جواب دہی سے دور بھاگتی ہیں۔ وہ اگر سہولتیں دیں گی بھی تو اونچی قیمت وصول کریں گی۔ ایسے میں ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں پرائیوٹائزیشن بھلا کتنا کارگر ہوگا؟
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار ٹرانسپورٹ سروس کے ماہر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS