کلین چٹ مل گئی، تیجشوی سوریا نے جن مسلم نوجوانوں پرلگائے تھے الزام

0
Image:bbc.com

نئی دہلی: بنگلورو پولیس نے ان سبھی 17 مسلم نوجوانوں کو کلین چٹ دے چکی ہے،جن پرپچھلے دنوں بنگلور ساؤتھ سے بھارتیہ
جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ تیجشوی سوریا نے اسپتال میں رشوت لے کر بیڈ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

ان 17 میں
سے تین نوجوانوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے کام سے استعفیٰ دے دیا۔ باقی 14 نوجوان اب اپنے مستقبل کی فکر میں ہیں۔ وہ
دوبارہ کام پر بلاے جائے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ان نوجوانوں میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی ہندی کو بتایا ، “ہم ابھی بھی کام پر واپس بلاے جانے کا
انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں جنوبی زون میں وار روم میں کام کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے،کیونکہ ہمارے ساتھی ملازمین ہمارا
ساتھ دے رہے ہیں۔

“ہمیں سوشل میڈیا پردہشت گرد بھی کہا گیا ہے،پھر بھی ہم اپنا کام جاری رکھنا چاہتے ہیں،تاکہ ہم کووڈ 19 کے متاثرین کی مدد کر
سکیں۔”

حال ہی میں،بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجشوی سوریا کووڈ 19 کے لئے اپنی پارٹی کے تین ایم ایل اے کے ساتھ
دھڑدھڑاتے ہوئے بنگلورو جنوبی زون کے وار روم میں گھس گئے ۔

تیجسوی سوریہ نے ان 17 نوجوانوں کے نام گناتے ہوئے پوچھا
تھا کہ انہیں نوکری پر کس نے رکھا ہے؟

انہوں نے الزام لگایا کہ کووڈ 19 مریضوں کے بستر تقشیم کرنے میں گھوٹالہ چل رہا تھا۔ تیجشوی سوریا کے وار روم میں گھسنے
کے اس ویڈیو میں،باسوان گڑی سے بی جے پی کے ممبراسمبلی روی سبرامنیم یہ سوال کرتے دیکھے گئے تھے کہ پ، “کیا افسر
یہاں کارپوریشن چلا رہے ہیں یا مدرسہ؟

بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور ان کے ساتھی ممبران اسمبلی کے مابین ہونے والی گفتگو نے اس پورے واقعہ کو فرقہ وارانہ
رنگ دے دیا تھا ۔
چونکہ،بعد میں بنگلورو پولیس کی سٹی کرائم برانچ (سی سی بی) نے اپنی تفتیش میں پایا کہ،جن 17 نوجوانوں پر بیڈ تقسیم کرنے میں
گھوٹالے کا الزام عائد کیا گیا تھا ، وہ کورونا سے متاثرہ افراد کو بیڈ الاٹ کرنے کے کام میں لگائے ہی نہیں گئے تھے۔

بنگلورو پولیس کی سٹی کرائم برانچ اور سنٹرل ڈویژن نے اب تک اس معاملے میں بیڈ الاٹمنٹ گھوٹالہ میں سات ملزموں کو گرفتار کیا
ہے۔ پولیس تفتیش ابھی بھی جاری ہے۔

انتظار


ان نوجوان پر جو الزامات لگائے گئے تھے ان سے یہ بری ہوگئے ہیں ، لیکن اب وہ کام پر واپس لوٹنے کا انتظار کررہے ہیں۔

ان میں ایک نوجوان کاکہنا تھا کہ، “وار روم کی انچارج تھولاسی منینی (زونل کمشنر) کا راویا ہمارے ساتھ بہت اچھا تھا اور انہوں
نے ہم سے کہا تھا کہ کام پر رکھنے والی کمپنی ہمیں ہماری شفٹ بتانے کے لئے فون کرے گی۔ ہم یقین کے ساتھ گھر آئے۔ لیکن ہمیں
اب تک کوئی فون نہیں آیا ہے ۔

بی جے پی کے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ نے 210 ممبروں والے وارروم میں ان نوجوانوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا۔ اس کو
لیکر ان 17 نوجوانوں میں سے زیادہ تر لوگوں بات چیت کے دوران ان کی الگ الگ رائے سامنے آئیں۔

ایک نوجوان ابھی تک صدمے میں ہے،جب کہ ایک اور نوجوان کا کہنا تھا کہ، “مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آیا ہے کہ ہم لوگوں کے نام
لینے کا کیا مطلب تھا؟ ہم تو بیڈ کے الاٹمنٹ میں کسی طرح سے جڑے ہی نہیں تھے۔”

ان میں سے بیشتر کی عمریں 22 سے 26 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا ، “ہم ایک ایسی سیاسی لڑائی کا شکار
ہوگئے جس میں ہماری کوئی غلطی نہیں تھی۔ ہم اب مظلوم بن چکے ہیں اور ہمیں اب یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم یہ نوکری مل جائے
گئی یا نہیں ۔”

‘سارا واقعہ سمجھ سے بالاتر ہے’
ان میں سے کچھ تو اپنے گھروالوں واحد کمانے والے ہی ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر ڈگری ہولڈر نوجوان ہولڈر ہیں۔ وہیں کچھ کو ابھی
بارہویں کلاس کے کچھ پرچوں کے امتحان دینے ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے پروفیشنل کورس بھی کیا ہیں۔

سبھی نوجوان اس بات سے صدمہ میں ہیں کہ ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان پر الزام لگایا گیا۔ چونکہ اس واقعے کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے انہیں عام لوگوں سے بہت پیار اور عزت بھی ملی۔

بی بی سی سے بات کرتے ایک نوجوان نے کہا ، “میں وہاں پیسہ کمانے نہیں گیا تھا۔ میرا تعلق خوش حال کنبے سے ہے۔ میں وہاں
صرف لوگوں کی مدد کے لئے گیا تھا۔ کورونا وائرس نے ہر طبقہ کو متاثر کیا ہے۔” ہوسکتا ہے کہ آپ میری مدد کرسکیں ، یا ہوسکتا
ہے کہ میں آپ کی تھوڑی مدد کرسکوں۔ اس طرح سے مستقبل میں لوگ ہمیں یاد رکھیں گے۔
“میں ابھی صرف 22 سال کا ہوں اور میرے پاس کمانے کے لئے 60 سال کی عمر پڑی ہے۔ چونکہ ابھی تو ہم بے بس ہیں اور
کسی کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہو چکے ہیں۔


” کام پر واپس بلانے کا بے صبری سے انتظار کرتے ایک اور نوجوان نے کہا کہ “ایسا لگتا ہے کہ ساری کوشش صرف ہمیں بدنام
کرنے کی تھی۔ انہوں نے کیا کہا؟ کیوں کہا؟ یہ باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔
بیڈ الاٹ کرنے کے سافٹ ویر میں کچھ آئی ٹی پروفیشنلس نے جو چار بدلائو کیا ہے ان کے بارے میں بتانے کے لئے تیجوسی سوریا
نے حال میں ایک پریس کانفرنس بلائی تھی ۔

اس پریس کانفرنس میں ، تیجوسی سوریا نے دعوی کیا تھا کہ جن 17 ناموں کو انہوں نے پڑھا تھا ان کی فہرشت ایک سینئر افسر
نے انہیں دی تھی، اور انہوں نے وہ نام یہ جاننے کے لئے پڑھے تھے کہ انہیں کس بنیاد پر کام پر رکھا گیا تھا۔” اور انہیں کس
بنیاد پر ہٹا دیا گیا؟

سوریا نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کو بالکل بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ایسے میں ان کے نام لینے
کے بعد جن مسلم ملازمین کو کام نہیں کرنے پر منا کردیا گیا، کیا ان سے وہ کس بات کی معافی مانگنیں ؟
تیجوسی سوریا سے جب کئی رپورٹرز نے یہ سوال پوچھا کہ وار روم کے 210 ملازمین میں سے صرف انہوں نے 17 کے ہی


نام کیوں لیا، تو انہوں نے ان سوالات کے جواب دینے سے صاف انکار کردیا۔

لوگوں کو کام پر رکھنے والی اس ایجنسی کے ایک عہدیدار نے بی بی سی ہندی کو بتایا، “اب ہم نے ان 17 نوجوانوں میں سے کچھ
مشورہ دیا ہے کہ وہ وار روم میں جائیں،جہاں شفٹ شام چار بجے سے شروع ہوتی ہے اور رات کے وقت ختم ہوتی ہے۔ ان میں سے
کئی نوجوانوں نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے استعفی دے دیا ہے۔ جیسے ہی وار روم میں کچھ جگہ خالی ہوگی، ہم ان لوگوں
کو ملازمت دیں گے۔
بنگلور میٹرو پولیٹن پالیکا (بی بی ایم پی) کے چیف کمشنر گورو گپتا نے بی بی سی ہندی کو بتایا، “ہمارے زونل کمشنر نے ان سبھی
نوجوانوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہوگی۔ ہماری طرف سے ان پر کوئی کارروائی نہیں ہونے جارہی ہے۔
میں آپ کو یقین دلاسکتا ہوں۔ یہ عارضی ملازمتیں ہیں اور وہ ابھی بھی کنٹریکٹ ایجنسی کے ساتھ کام کر رہیں ہیں۔

لیکن ،جب سے تیجسوی سوریا نے ان کے نام لئے تھے اور جب تک انہیں دوبارہ کام پر نہیں بلالیا جاتا ہے اس دوران کی تنخواہ ان نوجوانوں کو ملے گی یا نہیں، یہ کسی کو نہیں ۔

ملک میں سب سے زیادہ کووڈ 19 معاملوں میں کرناٹک ابھی دوسرے نمبر پر ہے اور کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو ابھی بھی کووڈ کی وبا کی دہشت میں مبتلا ہے۔

بشکریہ :bbc.com
ترجمہ: دانش رحمٰن

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS