مسلم یونیورسٹی کے ہیرۂ نایاب ’ ظفریاب جیلانی ‘

0

سید عتیق الرحیم
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ قانون کے طالب علم رہ چکے ظفریاب جیلانی کے انتقال سے مسلم یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ،و طلبا قدیم میں رنج و غم کا ماحول ہے، غور طلب ہے کہ مرحوم ظفریاب جیلانی یہاں طالب علم کے ساتھ ساتھ طلبا یونین کے لیڈر بھی رہے ،متعدد بار سپریم گورننگ باڈی (اے – ایم – یو کورٹ) کے ممبر اور ایگزیکیٹو کونسل کے بھی کئی بار رکن رہے، ظفر یاب جیلانی ایسی شخصیت کا نام ہے ،جو دورانِ طالب علمی سے ہی ملت کے مسائل کے لیئے لڑتا رہا، 1972 کی کانگریس حکومت میں جب نور الحسن وزیر تعلیم تھے اس وقت حکومت نے مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار پارلیمنٹ میں بل پاس کر کے ختم کر دیا تھا، کانگریس کے اس قدم کو مسلم یونیورسٹی کے طلبا یونین، سینئر اساتذہ اور ملک کے دیگر ملی رہنماؤں نے اسے ’سیاہ بل‘ قرار دیتے ہوئے قومی سطح پر اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے مسلم یونیورسٹی سے جو تحریک ظفر یاب جیلانی نے شروع کی وہ ملک گیر تحریک بنی، اور لکھنؤ اور دہلی اس ملک گیر تحریک کا مضبوط مرکز بنا ،اور یہ تحریک 1981 تک اس وقت تک چلتی رہی جب تک اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مجبور ہو کر دوبارہ پارلیمنٹ سے اقلیتی کردار کو بحال نہیں کیا، اس اہم تحریک کے گواہ رہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ نفسیات کے سابق صدر اور ظفریاب جیلانی کے معتمد خاص حافظ ڈاکٹر محمد الیاس اس دور کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس تحریک میں شامل اہم طلبا لیڈران میں عارف محمد خان،مرحوم جاوید حبیب،مشتاق احمد خلّو، بصیر احمد خان،عرفان اللہ خان، اور احمد سلیم پیرزادہ اور دیگر بیشمار طلبا لیڈران نے ملک و ملت کے قائدین و رہنما کے ساتھ قدم بہ قدم ساتھ چل کر مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار کی بحالی کی جنگ لڑی، حافظ ڈاکٹر محمد الیاس آگے بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی اور اس وقت کے نوجوان لیڈر ظفر یاب جیلانی کی قربانیوں کو قوم فراموش نہیں کر سکتی ہے، قابل ذکر کے ظفر یاب جیلانی کے انتقال کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ قدیم اور موجودہ طلبا و اساتذہ اور عوام میں جو مسئلہ سب سے زیادہ موضوع بحث ہے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وقار اور اْس کی بقاء ہے، کیونکہ موجودہ وقت میں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دو طرفہ خطروں سے گھری ہوئی ہے، ایک طرف بر سر اقتدار سیاسی جماعت اس یونیورسٹی کے تشخص کو ختم کرنے پر آمادہ ہے تو اسی ادارہ کے فارغ التحصیل سابق وائس چانسلر موجودہ لیجسلیٹو کونسل کے رکن کی ان کو حمایت حاصل ہے، بتاتے چلیں کہ 2007 سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے، الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک سنگھ کے لیڈر کی رٹ پر اقلیتی کردار کو سلب کر دیا تھا، جسے اس وقت کے وائس چانسلر آئی- اے- ایس نسیم احمد نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ،جو 7 ججوں کی بینچ نے اسٹے قرار دے رکھا ہے، اس کے بعد سے مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلروں جن میں پروفیسر پی- کے – عبد العزیز، جنرل ضمیر الدین شاہ نے دلچسپی کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کی ، لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کی تعریف کرنی پڑے گی کہ اْنہوں نے اقلیتی کردار کے مسئلہ پر ملت کو اعتماد میں لے کر قانونی لڑائی لڑی، وہ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی سے بھی رابطہ میں رہتے تھے، اور ظفر یاب جیلانی سے بھی قانونی مشورے لیتے رہتے تھے، اور ملت کو اْمید تھی کہ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار کا مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیت جائے گی، لیکن پچھلے 6 سال میں جس طرح سابق وائس چانسلر اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی سے ممبر لیجسلیٹو کونسل پروفیسر منصور کی مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار سے عدم توجہی، ملت اسلامیہ کو مسلم یونیورسٹی سے دور رکھنے کی پالیسی اور سنگھ نوازی سے ملت اسلامیہ میں بے چینی بڑھی تھی اور قوم ایک بار پھر ظفریاب جیلانی کو اْمید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اور ان کی صحتیابی کے لیئے دعا کر رہی تھی، ڈاکٹر طارق منصور نے جس طرح مسلم یونیورسٹی کے وقار کو داؤں پر لگانا شروع کر دیا تھا، اس سے مسلم یونیورسٹی طلبا،اساتذہ،اور ملک کے ملّی رہنماؤں کی زبان پر پھر سے اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے نئے سرے سے پیش قدمی کرنے کی بات آنے لگی تھی. یوں تو ظفریاب جیلانی ایک ایسی غیر متنازع ملّی شخصیت تھی جس کو ہندوستان کی سبھی ملّی و مذہبی تنظیموں میں مقبولیت حاصل تھی ،وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے عہدیدار تو تھے ہی ،اس کے علاوہ آل انڈیا ملّی کونسل جماعت اسلامی ہند کے اہم اجلاس میں ان کی شرکت ہوتی تھی اہم بات یہ ہے کہ ظفریاب جیلانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بے پناہ محبت کرتے تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہر حالات سے باخبر رہتے تھے ،کسی مسئلہ میں اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسائل سے گھرا دیکھتے تھے تو ہر سطح پر حل کرانے میں لگ جاتے تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ان کے 50 سالوں کے قریبی دوست اور ہمراز جناب خورشید احمد خان ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ جیلانی صاحب سے میرے 5 دہائیوں سے رشتہِ ہیں، جب بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس پر کوئی خطرہ منڈراتا تھا یا طلبا کے خلاف کوئی وائس چانسلر حکومت سے مل کر زیادتی کرتی تھی جیلانی صاحب بے چین ہو جاتے تھے لکھنؤ سے مجھ سے حالات دریافت کرتے تھے اور جس سطح پر بھی حکومت سے بات کرنی ہوتی تھی کرتے تھے ، ایک بار ایسا بھی ہوا کہ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی ،اور صوبہ اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کی طلبا 70 دنوں سے دھرنا پر بیٹھے تھے اور طلبا یونین کے الیکشن کا مطالبہ وائس چانسلر سے کر رہے تھے ،وائس چانسلر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت سے مل کر طلبا کو پولیس سے پٹوانا چاہتے تھے ،اور دھرنا ختم کروانا چاہتے تھے ، جیسے ہی ان حالات کی خبر جیلانی صاحب کو ہوئی علی گڑھ آئے رات میں ہم لوگوں کی ملاقات ہوئی حالات کا جائزہ لیا ، اور صبح ہی ملائم سنگھ یادو سے بات کی ملائم سنگھ نے علی گڑھ کے سے ڈی – ایم سے بات کر کے یہ بات کہی کہ بچے ہمارے ہیں ان کو کوئی نقصان نہیں ہونا چائیے، ڈی – ایم نے وائس چانسلر سے منع کر دیا طلبا پر لاٹھی چارج کرنے سے ، آخر کار اس وقت کے وائس چانسلر کو طلبا کے آگے مجبور ہونا پڑا اور طلبا یونین الیکشن کا اعلان کیا ،تب دھرنا ختم ہوا ، خورشید احمد خان بتاتے ہیں کہ ظفریاب جیلانی جیسے بے لوث قوم کے خدمت گزار کم پیدا ہوتے ہیں ظفر یاب جیلانی کے انتقال سے مسلم یونیورسٹی برادری اور ملّی رہنماؤں کو بڑا صدمہ پہنچا ہے، یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ ظفریاب جیلانی کی شخصیت اس معاملہ میں بہت اہم تھی کہ اْنہوں نے ملت کے مسائل پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ایسا نہیں کہ اقتدار کے درباروں سے اْن کے لیئے بلاوا نہیں آیا بابری مسجد و رام جنم بھومی کیس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ظفریاب جیلانی سے بھارت کے پانچ وزرائے اعظم نے مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور بابری مسجد کا کیس پوری پائیداری و استقلال کے ساتھ لڑتے رہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ سپریم کورٹ نے مندر کے حق میں فیصلہ دیا۔
انہوں نے مقامی عدالت سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مسجد کے مقدمات کی پیروی کی، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں قانونی مشیر کے طور پر ہمیشہ پیش پیش رہے۔ مولانا مرحوم رابع حسنی ندوی سے ان کی بے انتہا قربت تھی بلکہ ظفریاب جیلانی، مولانا مرحوم علی میاں ندوی کے بے حد قریبی رہے ہیں اور تمام تر معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا تھا، لکھنؤ سمیت ملک کے الگ الگ علاقوں میں جہاں بھی ملی رفاہی کاموں کی بات ہوتی تھی تو ظفریاب جیلانی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور بھرپور تعاون کرتے تھے۔

 

ظفریاب جیلانی جو تاحیات بابری مسجد کے پیروکار رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دوران طالب علمی میں بھی کئی تحریکوں سے وابستہ رہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار بحالی کی تحریک کی پاداش میں جیل بھی گئے ملت اسلامیہ کے بچے،بچیوں کی تعلیمی ترقّی کے لیئے بھی کام کرتے رہے انجمن اصلاح المسلمین کے سکریٹری کے عہدے پر پر کئی برس تک خدمات انجام دیں جس کے زیرانتظام لکھنؤ کی کئی تعلیمی ادارے ہیں خاص طور سے اسلامیہ کالج ممتاز پی جی کالج و دیگر قبرستان و مساجد کی بخوبی خدمات انجام دی۔2002 میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں انہوں نے بابری مسجد کے مقدمات کی پورے دم خم کے ساتھ لڑنے میں اور مسجد کی تعمیر کے حوالے سے ہمیشہ جدوجہد کی،جس وقت اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ پر پابندی لگی، بڑھ چڑھ کر تنظیم کا مقدمہ لڑا ظفریاب جیلانی ایک سچے مسلمان ہونے کے ساتھ وہ مکمل انسان تھے انہیں ہندو مسلم سبھی مذاہب کے ماننے والوں میں یکساں مقبولیت حاصل تھی ایک طرف جہاں مسلمان ان کی صحت یابی کے لئے دعا کر رہا تھا تو دوسری طرف ہندو ان کے ٹھیک ہونے کے لیے منت سماجت کر رہا تھا ،لال باغ میں واقع امیر الدولہ اسلامیہ کالج کے اْن کے چیمبر میں عصر کی نماز کے بعد سے ہی اْن سے ملاقات کرنے والوں کی بھیڑ ہوتی تھی ، جن میں اچھی خاصی تعداد غیر مسلم افراد کی بھی ہوتی تھی ،ظفر یاب جیلانی نے صرف لکھنؤ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے الگ الگ علاقوں میں بے پناہ عوام کی مدد کی۔انہوں نے وکالت کے پیشہ کو صاف ستھرا اور ایمانداری کے ساتھ انجام دیا جو موجودہ دور میں نادرونایاب ہے۔ ظفریاب جیلانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اوہ اپنے فیصلے پر اٹل رہتے تھے اور قوم کے جذبات کا سودا نہیں کیا۔ جب بھی بابری مسجد کیس ،اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار بحالی کی تحریک ،اور مسلم ریزرویشن موومنٹ کی تاریخ رقم کی جائے گی تو ظفریاب جیلانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS