حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ایک باکردار مثالی استاذ

0

محمد ارشد ندوی
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی کی وفات ملک وملت کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان سمجھی جارہی ہے، کیونکہ آپ کی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس طرح کی وسعت کی حامل شخصیتوں کا ملنا ناممکن ہے مگر رب کریم کی ذات عالی سے ہمیں ناامید بھی نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ جو ذات گرامی جامع الکمالات شخصیتوں کو اٹھاتی ہے تو پھر اس جامعیت کی تکمیل کی خاطر اس عالم آب وگل میں چند ایسے افراد کو کھڑا کردیتی ہے جن میں انفرادی طور پر وہ سبھی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو تنہا اْس جانے والی شخصیت میں پائی جاتی تھیں۔حضرت مولانا رابع حسنی ندوی جو براہ راست میرے استاذ تھے، میرے لئے باعث سعادت ہے کہ میں نے استاذ محترم کے سامنے متعدد بار اْن سے متعلق کتاب کی عبارت پڑھی، تقریر کی، مقالات سنائے، اور دادتحسین حاصل کی، عشاء کے بعد آراستہ ہونے والی مجلسوں سے استفادہ کیا، جس کے فائدے ابھی تک محسوس ہورہے ہیں اور آئندہ بھی محسوس ہوتے رہیںگے۔استاذ محترم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک کامیاب استاذ تھے، اور استاذی کے منصب کو اپنے لئے باععث سعادت سمجھتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دفعہ جب آپ دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم تھے، دار العلوم کی مسجد میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں اصلاً استاذ ہوں اور استاذ کہلانا ہی پسند کرتا ہوں، اور استاذکی حیثیت سے طلباکی ذہنیت سے واقف ہوں، اس لئے طلبا جب غلطی کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں یہ بھی جانتا ہوں اور اچھا کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں یہ بھی جانتا ہوں ‘‘۔ ایک بار طلباسے خطاب کرتے ہوئے علم کی خوداری اور غیرت مندی پر یوں گویا تھے:’’علم بڑا غیرت مند اور خود دار ہے، بے توجہی سے علم بھاگتا ہے، علم اسی کو حاصل ہوتا ہے، جو اس پر محنت کرے گا، آپ یہاں دور دراز سے اپنا گھر بار، ماں باپ، بھائی بہن اور گھر کے آرام وآرائش سب چھوڑ کرآئے ہیں، یہ محل صحیح ہے، آپ کا انتخاب صحیح ہے، آپ بہت صحیح جگہ پر آئے ہیں، اور بہت ترقی کرسکتے ہیں، آپ اس کی قدر کریں، اپنا وقت لہو ولعب اور فضول مصروفیات میں نہ گزاریں، بلکہ علم میں پوری یکسوئی، محنت اورلگن کے ساتھ لگے رہیں، ان شاء اللہ! اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہوگی، اور آپ کو علم میں ترقی اور کامیابی حاصل ہوگی ‘‘۔ایک طرف طلبا سے اپنائیت کا اظہار ہے تو دوسری طرف علم کے تعلق سے طلباکو بیدار کرنے کا انوکھا انداز ہے جس میں ایک طالب علم کو اس کی بلند مقامی کا احساس دلایا جارہا ہے ساتھ ہی اسے اپنی ذمہ داری کے تئیں متنبہ کیا جارہا ہے۔استاذ محترم کا کمال یہ تھا کہ انتظامی ذمہ داریاں کبھی ان کے علمی کاموں میں رکاوٹ نہیں بنیں، یہی وجہ ہے کہ زمانہ طالب علمی سے لیکر تادم واپسیں کتابوں سے آپ کا گہرا تعلق رہا ، کتاب پڑھنا، پڑھانا، مضامین لکھنا، رسائل تصنیف کرنا، دیگر مصنفین کی کتابوں پر مقدمہ لکھنا ، تبصرہ کرنا یہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا، کیونکہ آپ میں علم کی طلب تھی دوسری طرف حصول علم کی خاطر محنت ومشقت دماغ سوزی کا جذبہ ہمیشہ اپنا اثر دکھاتا رہتا اور انہی دونوں چیزوں یعنی علم کی سچی طلب اور حصول علم کی خاطر محنت ومشقت کی طلباکو تلقین کرتے رہتے، ایک موقع سے امام غزالی کا یہ مقولہ ’’العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک، ف اِذا أعطیتہ کلک، فانت من عطائہ ایاک بعضہ علی خطر‘‘ (علم تمھیں اپنا تھوڑا حصہ بھی نہیں دے سکتا، جب تک کہ تم اسے اپنا پورے کا پورا نہ دیدو، اور پورا دینے پر بھی اس کا تھوڑا حصہ حاصل ہوجانا بھی محل خطر ہے، طلباکو سنایا اور آگے فرمایا: ’’علم بڑی محنت، مشغولیت اور توجہ چاہتا ہے، رات دن اس میں اپنے کو ڈبودینا چاہتا ہے، علم میں کمال واختصاص پیدا کرنے کے لئے اپنے کو اس میں لگانا ہوگا، علم آرام وراحت اور تفریحات کے ساتھ حاصل نہیں ہوسکتا ‘‘۔آپ کے نزدیک علم کی نزاکت بھی بالکل کھلی ہوئی تھی، طالب علم اگر اساتذہ کی رہنمائی کے بغیر مطالعہ جاری رکھتا ہے تو اس کے گمراہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے، کیونکہ علم بہت ہی نزاکت بھرا ہے، اس لئے طلباسے جہاں دلجمعی اور محنت وکاوش کی بات کرتے ہیں وہیں اساتدہ کی خصوصی رہنمائی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے، فرماتے:
’’آپ کو اپنے اساتذہ کرام کی رہنمائی میں کام کرنا ہوگا، ورنہ آپ بھٹک جائیںگے، محنت اور رہنمائی دونوں ہوں تب علم حاصل ہوگا، علم کے بارے میں امت مسلمہ کا نظریہ جامع اور مفید علم کا ہے، جو کسی کی رہنمائی میں رہ کر ہی حاصل ہوسکتا ہے، لہٰذا خوب محنت کریں، علم میں انہماک ہو ‘‘۔ایک استاذ کے لئے علمی قابلیت کے ساتھ سنجیدہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اگر استاذ سنجیدہ نہ ہو تو طلباپر استاذ کی زندگی کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، طالب علم مانوس ہونے کے بجائے بدک جاتا ہے قریب ہونے کے بجائے دور ہوجاتا ہے، استاذ محترم کی سنجیدگی ہم سب کے لئے قابل تقلید تھی، جب کبھی طلباکی غلط حرکتوں کی شکایت پہنچتی اور مجبور ہوکر طلباکی فہمائش کرتے تو فہمائش کا اسلوب بھی مہذب ہوتا اس میں ذرہ بدتہذیبی یا طلباکی بے جا حرکتوں پر انتقامی کارروائی کا اظہار نہ ہوتا، اگر طلباکبھی زیادہ غصہ کردیتے تو صرف اتنا فرماتے:’’اگر اس ادارہ کے نظام سے آپ فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اور ادارہ اور ادارہ کے ذمہ داروں کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں تو پھر ہم آپ میں جو طلباایسے ہیں ان کا انتظام کریںگے ‘‘۔عام طور سے یہ مشاہدہ ہے کہ جب کسی کو بڑا عہدہ حاصل ہوجاتا ہے تو وہ عہدہ ومنصب کی ذمہ داریوں میں ایسا مصروف ہوجاتا ہے کہ تدریسی ذمہ داری کو اپنے لئے بوجھ سمجھنے لگتا ہے اور ایک مرحلہ میں اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے، مگر استاذ محترم کا یہ حال تھا کہ پڑھانے کو سب سے اہم سمجھتے اور پوری توجہ سے روزانہ متعلقہ کتابیں پڑھاتے، جب طلبا کے سامنے بیٹھتے تو طبیعت کھل جاتی پوری دلجمعی سے سبق کے مضامین کی وضاحت کرتے اگر مسئلہ کچھ گنجلگ ہوتا تو متعدد مثالوں سے سمجھاتے، سال کی ابتدامیں وضاحت زیادہ ہوتی، درمیان میں وضاحت اوسط درجہ کی ہوتی اور اخیر میں وضاحت کم ہوتی مگر طلبا تینوں طریقہائے تدریس سے مطمئن ہوجاتے جو استاذ محترم کی تدریس اور تفہیم کی امتیازی لیاقت کی دلیل ہوا کرتے، عالمیت کے آخری سال میں ’’الادب العربی بین عرض ونقد ‘‘ نامی کتاب جو آپ کی تصنیف کردہ ہے کا پہلا سبق جو لفظ ادب کی حقیقت وماہیت سے متعلق تھا کی وضاحت کرنے لگے تو لفظ ادب سے متعلق بہت سی قیمتی افادات کے بعد فرمانے لگے:’’ادب دراصل انسان کے وجدان سے بنتا ہے، اور انسان کے وجدان کو متاثر کرتا ہے۔

، وجدان کی طاقت وصلاحیت اللہ تعالی نے تقریباً ہر انسان کو دی ہے خواہ محقق ومفکر ہو، اور خواہ جاہل وعامی، اس کی وجہ سے ادب کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے، اس لئے ادب کے ذریعہ کبھی مخاطب کے وجدان کو صرف لطف ولذت دینے کا کام کیا گیا، کبھی محض اپنی مرضی کے خیال کو جاگزیں کرنے کامقصد حاصل کیا گیا، اور کبھی مخاطب کے کسی انسانی تقاضے کی رعایت میں تسکین کا سامان کیا گیا، کبھی اس سے اصلاح عوام کا کام لیا گیا، اور پوری پوری قوم میں تبدیلی لے آئی گئی، یا اس کو ایک بالکل نئے یا متضاد رخ پر ڈال دیا گیا، اور اس سے غیر ملکی طاقتوں کو مبغوض بناکر مطرود کرنے کا کام لیا گیا، اس طرح ادب ایک طاقت ہے ایک اثر انگیز ذریعہ ہے، ایک انسانی تقاضہ کا فطری جواب ہے ‘‘۔تواضع ایک ایسا وصف ہے جس کے بغیر انسان کی تمام تر قابلیتوں پر پانی پھر جاتا ہے، ایک انسان ذاتی قابلیت کا حامل ہے مگر اس میں تواضع نہیں بلکہ اکڑفوں تکبر اور گھمنڈ یا پھر وہ احساس برتری جو دراصل احساس کمتری کا نتیجہ ہوتا ہے کا شکار ہے تو وہ اپنی قابلیت سے فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچاتا ہے، اس کے برخلاف اگر صلاحیت ولیاقت کے ساتھ تواضع سے آراستہ ہے تو اس کا فیض عام وتام ہوجاتا ہے ، یہی حال استاذ محترم کا تھا وہ ایک باشعور قابل انسان ہونے کے ساتھ تواضع کا پیکر تھے ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے، چھوٹے بڑے ہر ایک کا خیال رکھتے، اگر کوئی ملنے آتا اور نجی مصروفیتوں کی وجہ سے دیر ہوجاتی تو اس سے معافی مانگتے، اگر کوئی بڑا مہمان آجاتا تو ان سے کہتے کہ آپ نے زخمت کیوں کی مجھے حکم دیتے میں خود ہی آجاتا، مہمان سے پوری توجہ سے گفتگو کرتے، بیٹھنے کا انداز ایسا ہوتا کہ ہر ملنے والا اپنے کو استاذ محترم کے برابر سمجھتا، ایک مرتبہ دار الامور سری رنگا پٹنم کے سفر پر تھے طلباکے درمیان بیٹھے تعارف ہوا جب طلبا اپنا تعارف کراچکے تو استاذ محترم نے فرمایا ’’میں بھی آپ ہی کا ایک فرد ہوں فرق یہ ہے کہ میں نے طالب علمی کے مرحلے کو پہلے طے کرلیا ہے اور آپ ابھی طے کررہے ہیں، ہم اور آپ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، ہم میں آپ میں کوئی فرق نہیں ہے ‘‘۔استاذ محترم کو طلبا کی عملی زندگی کی بھی فکر دامن گیر ہوتی اس لئے طلبا کو عملی زندگی جینے کا گر بھی سکھاتے رہتے تھے، ایک بار ارشاد فرمایا: یہاں سے فارغ ہونے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ آپ کے معاش کا ہوگا روزی روٹی کا معاملہ مقدر ہوتا ہے جتنی روزی آپ کے مقدر میں ہے وہ آپ کو مل کر رہے گی اور اس کے لئے باعزت ڈھنگ سے کوشش اور طلب مطلوب بھی ہے مگر ادھر ادھر منہ مارنا آپ کو زیب نہیں دیتا ‘‘، پھر اپنا واقعہ سنایا کہ میں حجاز میں تھا وہاں سے واپسی پر میں اپنے گھر تکیہ پر ہی رہتا تھا کیونکہ اس وقت مجھے پڑھانے کی کوئی جگہ نہیں ملی تھی تو ان خالی ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اپنے کو مطالعہ میں مصروف رکھا، مطالعہ کرتا رہا، پھر ندوہ میں جگہ مل گئی اور پڑھانے لگا تو پڑھاتا ہی رہا ‘‘۔
ایک طالب علم جب کسی مدرسہ سے تعلیم مکمل کرلیتا ہے اور عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اس کے لئے باوقار زندگی یعنی عالمانہ وقار کی حامل زندگی گزار نا بھی چیلنج بن جاتا ہے جو اس کیلئے سوہان روح ثابت ہوتا ہے، اگر وہ ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے تو اپنی عزت بچالیتا ہے اور اگر مقابلہ کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو پھر ذلت اس کا مقدر بن جاتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج میں اپنا اعتماد کھو دیتا، استاذ محترم طلباکو ایسے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے اور اپنے وقار سے ذرہ برابر سمجھوتہ نہ کرنے کی تاکید فرماتے، ایک مرتبہ الناد ی العربی کے پروگرام میں ملک کی مشہور یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی شریک تھے جو استاذ محترم ہی کے شاگرد تھے، طلباکو نصیحت کرتے ہوئے ان اساتذہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ان حضرات کو دیکھئے اپنے وضع قطع کے اعتبار سے بالکل ویسے ہی ہیں جیسے یہاں تھے، اگر یہ حضرات ذرہ سمجھوتہ کرلیتے تو حکومت کے بڑے عہدوں تک پہنچ جاتے۔
آج کے حالات میں جہاں استاذی کو خدمت نہیں ایک پیشہ بنالیا گیا ہے، تدریس کو عبادت نہیں بلکہ بندھی ٹکی ملازمت، امانت نہیں بلکہ آزادانہ کام جس میں کسی طرح کی بازپرس نہ ہو سمجھ لیا گیا ہے، مخلص کو بیوقوف اور امانت دار کو حالات سے بے بہرہ، فریب کاری کو عقلمندی، شاطرانہ حرکتوں کو دیدہ دری اور دوراندیشی سے تعبیر کیا جاتا ہے، استاذ محترم کا مثالی کردار ہم سب کے لئے درس عبرت ہے۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS