ڈاکٹر ریحان اختر
اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے جواپنے ماننے والوں کوصرف مخصوص عقائد ونظریات کو اپنانے ہی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر یہ دین مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی یہ روشن اور واضح تعلیمات اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآن مجید او رنبی کریم کی صحیح احادیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ ہیں۔ انہی دوچشموں سے قیامت تک مسلمان سیراب ہوتے رہے ہیں گے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔ اسلام جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃاور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتاہے وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطا کرتا ہے۔ اسلام نے ایسے ایسے قو انین اور ضوابط متعارف کرائے ہیں جن میں چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑے سے بڑے معاملہ کی وضاحت فرمادی ہے۔ ہر معاملہ میں چاہے کوئی کمزور ہو یا طاقتور، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت ہر ایک کے لیے عدل و انصاف مہیا کیا ہے اور ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے اور ان کی وضاحت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے ذریعہ کردی ہے۔ عدل وانصاف کے متلاشیوں کے لیے رسول اللہ السلام کے لاکھوں اقوال زریں مختلف کتب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اسی طرح وراثت کی تقسیم کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل وانصاف مہیا کیا اور ہر وارث کو اس کا حق عطا فر مایا خواہ وہ مرد ہے یا عورت، بچہ ہے یا بوڑھا طاقت ور ہے یا کمر در حتی کہ ماں کے پیٹ میں موجود حمل کی وراثت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی حاملہ ماں، حاملہ بیوی یا حاملہ بہو کو زندہ چھوڑ کر فوت ہو گیا ہو، اسلام نے اس حمل کو بھی میت کا وارث مقرر فرمایا ہے۔
فرائض و وراثت کا مفہوم:
علم فرائض و ہ علم ہے جس سے میت کا ترکہ اس کے شرعی ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کا طریقہ معلوم ہو۔ مفہوم:
وجہ تسمیہ :فرائض: فریضۃ کی جمع ہے، فریضہ اللہ تعالیٰ کی بندوں پر عائد کردہ پابندیاں۔ اس کے لغوی معنی ہیں متعین چیز۔ چوں کہ میراث میں مستحقین کے حصے متعین ہوتے ہیں ، اس لئے ان حصوں کو فرائض کہا جاتا ہے، پھر رفتہ رفتہ علم میراث کو فرائض اور اس فن کے واقف کا رکو فرضی، فراض اور فریض‘‘ کہا جانے لگا اس فن کا دوسرا نام علم المواریث بھی ہے: وَرِث، یَرِث ارثا و میراثا کے معنی ہیں: وارث و خلیفہ ہونا کسی چیز کا ایک سے دوسرے کے پاس منتقل ہونا۔ علم المواریث: اصطلاح میں اس علم کو کہتے ہیں جس سے میت کی ملکیت اس کے زند ہ ورثاء کی طرف منتقل کی جاتی ہے۔ (۱)
علم فرائض کی فضیلت و اہمیت
وراثت جس کا قدیم اصطلاحی نام علم الفرائض ہے مسلم معاشرہ میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے دستور حیات قرآن مجید میں جزئیات کے احاطہ کے ساتھ تفصیلاً اس کا ذکر کیا گیا ہے اور حدیث و فقہ کی کتابوں میں اس کے لیے مستقل ابواب قائم کیے گئے ہیں اور اس کی اہمیت راسخ کرنے کے لیے ہر دور کے علماء اور مفکرین نے اس کی طرف توجہ کی ہے۔
اسلامی فقہ میں فن میراث کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں احکام بیان کرنے کے اپنے عمومی اسلوب سے ہٹ کر میراث کے مسائل کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ ہم نے بھی میراث کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر متعدد مواقع پر اس کے سیکھنے سکھانے کی ترغیب دی بلکہ جہاں قرآن سیکھنے کا حکم دیا اسی جملے میں میراث کے احکام سیکھنے پر زور دیا ہے۔ سلف صالحین کے ہاں یہ معمول رہا ہے کہ کسی طالب علم کو اس وقت تک حدیث کے درس میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا تھا جب تک وہ قرآن کریم حفظ اور میراث کے مسائل کو از بر نہ کر لیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم میراث اور ترکہ ایسی چیز ہے جس سے ہر مسلمان کو واسطہ پڑتا ہے پھر چوں کہ اس کا تعلق لوگوں کے مالی حقوق کے ساتھ ہے۔
نظام معاشرت خاص کر نظام معیشت کی استواری کے لیے معین قواعد و ضوابط کے مطابق وراثت کی تقسیم ایک بنیادی عامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی میں اعتدال اور توازن کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ایک اچھے پر امن اور مطمئن معاشرے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر خاندانی جھگڑے اور لڑائیاں زر اور زمین کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور یہی دو چیزیں وراثت کا موضوع ہیں۔ مسلمان معاشروں میں فتنہ و فساد کی ایک بڑی وجہ وراثت کے معاملات میں مقررہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور ان حدود کا پاس نہ رکھتا ہے جو اسلامی شریعت نے متعین کر دیے ہیں۔ اس کے اسباب و وجوہ میں جہاں اور بہت سی باتیں قابل توجہ ہیں وہاں ہوا و ہوس کے علاوہ متعلقہ قانوں سے ناواقفیت بھی ہے۔علم فرائض کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس علم کو سیکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور اسے نصف علم سے تعبیر کیا گیا ہے۔مفہوم: “اے ابو ہریرہ فرائض (یعنی میراث کے مسائل) سیکھو اور سکھاؤ! یقینا یہ نصف علم ہے ، اور وہ (یعنی میراث کا علم) سب سے پہلے بھلایا جائے گا، اور سب سے پہلے میری اْمت سے جو چیز اٹھالی جائے گی وہ علم میراث ہے “۔ (۲)ایک دوسری روایت میں ہے ۔میراث اور قرآنِ مجید کا علم حاصل کرو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو کیونکہ میں وصال پانے والا ہوں !۔( ۳) علم میراث کی اہمیت وافادیت بیان کرتے ہوئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا:(یعنی مسائل شرعیہ ) کا علم اسی طرح حاصل کرو جس طرح تم قرآن مجید سیکھتے ہو۔ ( ۴) دین کے وہ احکام جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں ان میں سے بعض کا تعلق عبادات سے کچھ کا اخلاق و عادات سے اور کچھ وہ ہیں جن کا تعلق مرنے کے بعد سے ہے علم الفرائض بھی اسی قبیل سے ہے اور ہر انسان سے اس کا تعلق ہے اسی لیے اللہ تعالٰی نے اس باب کی سنگینی اور نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی جزئیات تک کو بھی واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
مختلف مذاہب میں احکام وراثت
اسلام سے قبل عوام جن مذاہب کی پیروکار تھی ان میں وراثت کیجو احکامات ملتے ہیں ان کو نافذ کر کے ایک صالح معاشرہ کا وجود میں لانا نا ممکن نظر آتا ہے چنانچہ مذہب یہود میں وراثت کا حقدار صرف اور صرف بیٹے باپ ، بھائی ، چچا ہی وارث ہو سکتے تھے عورت کو وراثت میں کوئی حصہ داری نہیں ملتی تھی خواہ وہ مرنے والے کی ماں، بہن ،بیٹی یا بیوی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح عیسائی مذہب میں بھی صرف پلوٹھی کا بیٹا ہی وراثت کا حقدار سمجھا جاتا تھا یہاں بھی عورت کو اس کے اس حق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ ہندو مذہب کی روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے یہاں سب چیزیں بڑے لڑکے کی ملکیت میں رہے گی۔ ( ۵) نیز زمانہ جاہلیت میں بھی یہی رواج عام تھا کہ عورتوں اور نا بالغ بچوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور ترکہ پورا کا پورا بڑے بیٹوں کے حوالے کیا جاتاتھا۔ حافظ ذو الفقار علی لکھتے ہیں کہ عربوں کا اصول تھا کہ مال وراثت کے اہل صرف وہ ہیں جو میدان جنگ میں تلوار چلانے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔ جن میں لڑنے اور قبیلے کے دفاع کی صلاحیت نہیں وہ میراث کے بھی حق دار نہیں ہیں۔ چونکہ عورتیں اور بچے اس اصول پر پورا نہیں اترتے تھے اس لئے وراثت سے یکسر محروم رہتے تھے۔( ۶)
ترکہ اور حقوق اربعہ :میت جو مال چھوڑ کر جاتی ہے اس پر ترتیب وار چار حقوق مرتب ہوتے ہیں۔ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے مال سے پہلے شریعت کے مطابق اس کے کفن دفن کے اخراجات پورے کئے جائیں، جن میں نہ فضول خرچی ہو نہ کنجوسی ہو، اس کے بعد اس کے قرضے ادا کئے جائیں، اگر قرضے اتنے ہی ہوں جتنا اس کا مال ہے یا اس سے بھی زیادہ تو نہ کسی کو میراث ملے گی نہ کوئی وصیت نافذ ہوگی اور اگر قرضوں کے بعد مال بچ جائے یا قرضے بالکل ہی نہ ہوں تو اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو اور وہ کسی گناہ کی وصیت نہ ہو، تو اب جو مال موجود ہے اس کے ایک تہائی میں سے اس کی وصیت نافذ ہو جائے گی، اگر کوئی شخص پورے مال کی وصیت کر دے تب بھی تہائی مال ہی میں وصیت معتبر ہوگی ،تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا مناسب بھی نہیں ہے اور وارثوں کو محروم کرنے کی نیت سے وصیت کرنا گناہ بھی ہے۔ ادا دین (قرض )کے بعد ایک تہائی میں وصیت نافذ کر کے شرعی وارثوں میں تقسیم کردیا جائے جس کی تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں ، اگر وصیت نہ کی ہو تو ادا دین کے بعد پورا مال میراث میں تقسیم ہو گا۔( ۷)
(جاری )
[email protected]
اسلام میں تصور وراثت: ایک تحقیقی جائزہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS