مشکل میں ممتا بنرجی

0

شنکر جالان

مغربی بنگال میں انتخابات بھلے ہی ختم ہوگئے ہوں لیکن سیاسی سرگرمیاں ابھی بھی عروج پر ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد تشدد کا معاملہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا کہ ایک اور مسئلے نے سبھی کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے۔ معاملہ نارد اسٹنگ آپریشن کا ہے جس کے باہر نکلنے کے بعد ممتا بنرجی ناراض ہوگئی ہیں۔ وہیں ممتا جو نہ صرف ایک سیاسی پارٹی کی سربراہ بلکہ ایک ریاست کی وزیر اعلیٰ جیسے آئینی عہدے پر ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں بار بار سنٹرل جانچ ایجنسی (سی بی آئی) سے ٹکرائو کی پوزیشن میں آجاتی ہیں، یہ سمجھ سے پرے ہے۔
پیر (17مئی) کو سی بی آئی دفتر (نظام پیلیس) پہنچنا، وہاں تقریباً 6 گھنٹے تک دھرنا دینا اور تو اور سی بی آئی کے عہدے داروں سے خود کو گرفتار کرنے کی مانگ کو لے کر ممتا نے بھلے ہی گرفتار لیڈروں (سبرت مکھرجی، فرہاد حکیم،مدن مترا اور شوبھن چٹرجی) کو یہ دکھادیا ہو کہ وہ ہر حال میں اور ہر وقت ان کے ساتھ کھڑی ہیں لیکن کہیں نہ کہیں عوام کو یہ بتانے میں ناکام رہیں کہ بار بار سی بی آئی سے ٹکرائو کی ان کی اہم وجہ کیا ہے؟

عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ریاست میں لاک ڈاؤن کے دوران ماسک نہ پہننے پر پولیس ڈنڈا برسا رہی ہے، کرانہ دکان وقت سے کچھ زیادہ دیر تک کھلے رہنے پر جرمانہ عائد کیا جا رہا ہے، ایسے میں ترنمول لیڈروں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس کیا کارروائی کرے گی؟ ظاہر ہے کہ فی الحال ان سوالوں کا مناسب جواب نہ ترنمول کانگریس کے پاس ہے، نہ ہی بی جے پی کے پاس، نہ ہی سی بی آئی کے پاس اور نہ ہی کولکاتا پولیس کے پاس۔

ممتا بنرجی کا یہ کہنا ہے کہ سی بی آئی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے اشارے پر کام کررہی ہے اور بی جے پی کے یہ دونوں سینئر لیڈر بنگال اسمبلی انتخابات میں زبردست شکست کے بعد بدلے کے جذبات سے کام کررہے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ممتا کی اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی کیا ممتا کے اس برتائو کو صحیح ٹھہرایا جاسکتا ہے جو پیر کو دن بھر انہوں نے اور ان کی پارٹی کے حامیوں اور کارکنان نے کیا؟ کسی مرکزی ایجنسی کی کارروائی میںمداخلت کرنا کسی کے لیے بھی ٹھیک نہیں اور خاص کر اس خاتون کے لیے تو بالکل ٹھیک نہیں جو ایک آئینی اور ذمہ دار عہدے پر فائز ہو۔ سی بی آئی کے خلاف ناراضگی ظاہر کی جاسکتی ہے اور ایسا کرنا قانونی طور پر غلط بھی نہیں ہے بشرطیکہ مخالفت کا طریقہ پوری طرح قانونی ہو یعنی سی بی آئی کی کارروائی کو غیر قانونی بتانے کے لیے عدالت کے دروازے پر دستک دی جاسکتی تھی لیکن ایسا کرنے سے پہلے ہی ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کے حامیوں نے نظام پیلیس اور راج بھون کے سامنے جس طرح کا ماحول بنایا، اس نے جمہوریت کو تو کٹہرے میں کھڑا کیا ہی، صوبے کے نظم و نسق پر بھی سوالیہ نشان لگادیا۔
ویسے یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب ممتا بنرجی سی بی آئی اور بدعنوان ملزمین کے بیچ دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہوں۔ اس سے پہلے (2019 میں) کولکاتا کے اس وقت کے پولیس کمشنر راجیو کمار کے گھر پوچھ گچھ کو پہنچی سی بی آئی ٹیم کی ممتا نے نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ کولکاتا پولیس کے ساتھ سی بی آئی عہدے داروں کی ہاتھا پائی کی نوبت تک آگئی تھی۔ صورت حال اتنی بگڑ گئی تھی کہ سی بی آئی کو بیرنگ لوٹنا پڑا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان اور اپنے بھتیجے ابھیشیک بنرجی کے گھر جب سی بی آئی پہنچی تب بھی ممتا بنرجی نے کارروائی میں رکاوٹ ڈالی۔
عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ریاست میں لاک ڈائون کے دوران ماسک نہ پہننے پر پولیس ڈنڈا برسا رہی ہے، کرانہ دکان وقت سے کچھ زیادہ دیر تک کھلے رہنے پر جرمانہ عائد کیا جا رہا ہے، ایسے میں ترنمول لیڈروں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس کیا کارروائی کرے گی؟ ظاہر ہے کہ فی الحال ان سوالوں کا مناسب جواب نہ ترنمول کانگریس کے پاس ہے، نہ ہی بی جے پی کے پاس، نہ ہی سی بی آئی کے پاس اور نہ ہی کولکاتا پولیس کے پاس۔
بھلے ہی بی جے پی لیڈر اسے قانون کے تحت کی گئی کارروائی بتارہے ہوں اور ترنمول کے لیڈر انتخابی شکست کے بعد بدلے کی کارروائی بتاتے ہوئے اپنی اپنی منطق دے رہی ہوں لیکن جانکاروں کا کہنا ہے کہ سی بی آئی کی کارروائی غلط ہے یا صحیح یہ جاننے کے لیے عدالت جانا چاہیے۔ ممتا کو دھرنے پر بیٹھنے، ترنمول حامیوں کا مظاہرہ کرنے، ترنمول لیڈروں کو گورنر کے خلاف غلط زبان کے استعمال کرنے کے بجائے عدالت میں اپنی بات رکھنی چاہیے۔ معلوم ہو کہ 2014 میں ایک صحافی نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا تھا جس میں کچھ لیڈروں اور پولیس عہدے داروں سے بنگال میں سرمایہ کاری کے نام پر مدد مانگی گئی تھی۔ خود کو صنعت کار کہنے والا یہ صحافی نوٹوں کی گڈیاں انہیں سونپتا ہے اور سب کچھ کیمرے میں قید کرلیا جاتا ہے۔ اس نے ایسا 7 اراکین پارلیمان، ایک ممبر اسمبلی اور 4 وزرا اور ایک سینئر پولیس افسر کے ساتھ کیا۔ اس اسٹنگ کو 2016 میں اسمبلی انتخابات کے عین پہلے بنگلہ ٹیلی ویزن چینل پر دکھائے جانے کے بعد وبال مچ گیا تھا۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS