ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے

0

انجینئر خالد علیگ

11 دنوں سے جاری بربریت فی الحال تھم گئی۔ جمعہ کی رات 2 بجے سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ بند ہوگئی۔ اسرائیل کی توپیں خاموش ہو گئیں اور فلسطینی اپنے مکانوں کے ملبے سے بچا کھچا سامان نکالنے کے لیے اپنے گھروں کا رخ کرنے لگے اور ان قبرستانوں کا رخ کرنے لگے جہاں وہ جلدی جلدی اپنے بچوں اور عورتوں کو دفن تو کر آئے تھے مگر اسرائیلی میزائیلوں کے خوف سے ٹھیک سے فاتحہ بھی نہ پڑھ پائے تھے، قبروں کی مٹی بھی استوار نہ کر پائے تھے۔ اس 11 روزہ خوں ریزی کا نتیجہ کیا نکلا؟ نہ اسرائیل کی فتح ہوئی، نہ حماس کی ہار، پھر بھی دونوں فریق اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ 250 معصوم فلسطینی شہید ہو گئے اور 12 یہودی بھی مارے گئے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام کی پول کھل گئی۔
11 دن ہر رات اسرائیل کے لاکھوں شہریوں کو بنکروں میں سونا پڑا۔ اسرائیلی بمباری میں غزہ پٹی کا بنیادی ڈھانچا تباہ ہو گیا۔ اسکول، اسپتال، سڑکیں، کووِڈ سینٹر رہائشی مکان سبھی تباہ ہوگئے۔ 60 سے زیادہ معصوم بچوں کو، جن کی عمر ماں کی گود میں سونے کی تھی، منو مٹی کے نیچے ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔ یہ تماشہ پہلی بار نہیں ہوا تھا لیکن کچھ تو ہے جو پہلی بار ہوا ہے اور شاید اسی لیے جنگ بندی کی خبر سن کر ایک عجیب سا احساس جگا ہے جسے احساس فتح بھی کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ لاکھوں فلسطینی غزہ بیت المقدس اور رملہ کی سڑکوں پہ نکل کر فتح کا جشن منانے لگے، غزہ کی ان سڑکوں پر انہوں نے تشکر کے سجدوں کی بارش کر دی جن پر دو دن پہلے تک اسرائیلی بارود برس رہی تھی۔ میرا بھی جی چاہا کہ اس جشن میں شریک ہو جاؤں۔ فیض احمد فیضؔ کی وہ نظم جو سی اے اے تحریک کے درمیان مشہور ہو گئی تھی، ایک بار پھر ڈاؤن لوڈ کر کے موبائل پہ سننا شروع کر دی۔

بس حماس اور جہاد اسلامی کے چند ہزار جیالے سروں پہ کفن باندھے دنیا کے ایک طاقتور ملک کی توپوں کو للکار رہے تھے اور یہ ثابت کرنے میں مصروف تھے کہ حوصلے کو توپوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ جذبوں کو فوج کی طاقت سے پست نہیں کیا جا سکتا اور جو لوگ موت سے نہیں ڈرتے، ان کو بموں سے خائف نہیں کیا جا سکتا اور جن کے منہ کو جام شہادت کا ذائقہ لگ جائے، وہ قبروں کی تعداد سے نہیں گھبرایا کرتے۔

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
…………
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
عربوں اور اسرائیل کے درمیان اور بھی جنگیں ہوئیں مگر یہ مختصر سی جنگ ان تمام جنگوں سے مختلف تھی۔ آج نہ صدر جمال عبدالناصر تھے، نہ صدر نمیری، نہ حافظ الاسد، نہ قذافی، نہ صدام حسین اور نہ اردن کے شاہ حسین جو ہر موقع پر فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے، نہ ہی فلسطینیوں کے قائد یاسر عرفات اور نہ ہی یاسر عرفات کی پی ایل او۔ بس حماس اور جہاد اسلامی کے چند ہزار جیالے سروں پہ کفن باندھے دنیا کے ایک طاقتور ملک کی توپوں کو للکار رہے تھے اور یہ ثابت کرنے میں مصروف تھے کہ حوصلے کو توپوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ جذبوں کو فوج کی طاقت سے پست نہیں کیا جا سکتا اور جو لوگ موت سے نہیں ڈرتے، ان کو بموں سے خائف نہیں کیا جا سکتا اور جن کے منہ کو جام شہادت کا ذائقہ لگ جائے، وہ قبروں کی تعداد سے نہیں گھبرایا کرتے۔چلئے عرب-اسرائل قضیہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق الٹنے ہوں گے۔ 1948 میں اپنے ناجائز قیام کے بعد اسرائیل نے پہلی بار اپنی فوجی طاقت کا احساس 1967 کی جنگ میں کرایا اور عالم اسلام پر ہی نہیں، پوری دنیا پہ یہ واضح کر دیا کہ گریٹر اسرائیل کا قیام صرف ایک خواب نہیں ہے۔ اس جنگ کے جو عبرت ناک نتائج سامنے آئے، اس نے نہ صرف یہ کہ عربوں کو عبرت ناک شکست دی بلکہ ساری دنیاکو حیران کر دیا، ساتھ ہی صہیونیت کو بھی واضح کر دیا۔ اس سے قبل دنیا سمجھتی تھی کہ اسرائیل، مصر، شام اور اردن کے درمیان گھرا ہوا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کو یہ ممالک جب چاہیں رام کر سکتے ہیں، خاص کر مصر عربوں کی قیادت کرتا تھا، ساری دنیا صدر ناصر کا لوہا مانتی تھی، کہا جاتا تھا کہ اکیلے مصر کے پاس چار ہزار جنگی طیارے تھے جو اگر ایک ساتھ پرواز بھریں گے تو اسرائیل پہ اندھیرا چھا جائے گا لیکن اسرائیل نے یہ جنگ جیت کر مشرق وسطیٰ کی سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ عربوں کی شکست نے صدر ناصر کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا۔ وہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور 1970 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ صدر ناصر کی وفات کے بعد انور سادات مصر کے صدر بن گئے اور مصر امریکہ سے قربت کی پالیسی پہ گامزن ہو گیا۔ مصر کا خیال تھا کہ روس نے 1967 کی جنگ میں عربوں کا ساتھ ان کی توقعات کے مطابق نہیں دیا جو اسرائیل کی فتح کی وجہ بنا۔ وجہ جو بھی رہی ہو، عرب ممالک کے سب سے طاقتور ملک مصر نے روس سے دوری بنانی شروع کر دی اور سادات امریکہ سے قریب ہونے لگے۔ نتیجہ 1979 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی شکل میں سامنے آیا جس میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کر دیا۔
مصر کے بعد فلسطینیوں کے لیے تنہا اسرائیل سے لڑنا آسان نہیں رہ گیا تھا، اس لیے یاسر عرفات نے ناروے کی حکومت کی مدد سے اسرائیل سے بات کرنی چاہی جو کوشش اس وقت تو ناکام رہی لیکن بعد میں 1993 اور پھر 1995 کے اوسلو معاہدے کی شکل میں دنیا کے سامنے آئی۔ اس معاہدے میں اسرائیل نے پی ایل او کو فلسطینیوں کا نمائندہ قبول کیا۔ یاد رہے کہ اوسلو معاہدے سے قبل اسرائیل پی ایل او کو اسی طرح ایک دہشت گرد تنظیم مانتا تھا جیسے آج کل حماس کو مانتا ہے۔ اس معاہدے میںپی ایل او نے بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا لیکن بہت سے عرب حکمراں جن میں صدام حسین، معمر قذافی اور بشار الاسد شامل تھے، وہ اس معاہدے کو عرفات کی بزدلی تصور کرتے تھے۔ مصر میں بھی عوام کی اکثریت اس معاہدے کے خلاف تھی جن میں اخوان المسلمین پیش پیش تھی۔ اسی تنظیم نے حماس کے قیام میں اہم رول ادا کیا تھا۔ یاسر عرفات کی زندگی میں حماس اس لیے زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکی، کیونکہ یاسر عرفات کو فلسطین کا بے تاج بادشاہ تصور کیا جاتا تھا مگر ان کی موت کے بعد حماس ان لوگوں کے لیے امید کا محور بن گئی جو اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اسرائیل امن کی زبان نہیں سمجھتا۔ یہ پس منظر ہے حماس کے ایک طاقتور تنظیم بننے کا اور اس جنگ کا جو 11 روز تک جاری رہی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ حماس اکیلے اسرائیل کی بر بریت کا سامنا کر رہا ہے۔ عرب-اسرائیل قضیہ جو کبھی مسلمان اور یہودیوں کی جنگ ہوا کرتی تھی، اس کو پہلے تو صدر ناصر کی عرب قوم پرستی نے عرب -اسرائیل کی جنگ بنا دیا۔ اس کے بعدکیمپ ڈیوڈ معاہدے نے اس کو فلسطین اور اسرائیل تک محدود کر دیا اور اس کے بعد ستم ظریفی یہ ہوئی کہ فلسطینی بھی حماس اور پی ایل او میں تقسیم ہیں اور حماس اکیلے اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہے۔ فلسطین کے نقطۂ نظر سے اس 11 روزہ جنگ کے جو مثبت نتائج نمودار ہوںگے، اس میں یہ بھی ہوگا کہ آنے والے وقت میں محمود عباس کی مصلحت والی سیاست کا ساتھ دینے والے بھی حماس کی چھتری کے نیچے آجائیں گے۔ ابھی تک حماس نے جس بہادری، حوصلے اور جذبے کا مظاہرہ کیا ہے، وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ یہی وہ کارگر ہتھیار ہے جو صہیونی طاقت کو شکست دے سکتا ہے اور اسرائیل کو یہ باور کرا سکتا ہے کہ حوصلے ہتھیاروں سے نہیں ہارا کرتے۔ اسرائیل اور دنیا کی ان تمام طاقتوں کو جو طاقت کے بل پر مظلوم کی آواز دبادینا چاہتے ہیں، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم جتنا شدید ہوتا ہے، اس کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہوا کرتا ہے۔ گزشتہ 70 سالوں سے اسرائیل طاقت کے بل پر معصوم فلسطینیوں کو کچل دینا چاہتا ہے لیکن نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ جن بچوں کے ہاتھوں میں قلم تھا، ظلم نے ان کے ہاتھوں میں پتھر تھما دیے۔ اسرائیل نے ظلم بڑھایا، ان ہاتھوں سے پتھر چھین لیے تو وقت نے ان کے ہاتھوں میں راکٹ اور میزائل دے دیے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟اسرائیل کی ہر ظالمانہ کارروائی مسلم دنیا میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نفرت کے سمندر میں ہزاروں گیلن پانی کا اضافہ کر دیتی ہے۔ نفرت کے اس سمندر کو مزید آلودہ ہونے سے بچانا امریکہ اور اسرائیل دونوں کے حق میں ہے جس کے لیے فلسطین کے مسئلے کا ایک پائیدار حل تلاش کرنا امریکہ کی ذمہ داری ہے۔ کچھ مسلمان حکمرانوں کو خرید کر امریکہ نفرت کی اس آندھی کو نہیں روک پائے گا۔ بھلے ہی امارات، سوڈان، مصر جیسے ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہو مگر امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان ملکوں کے 10 فیصد لوگ بھی اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس دور میں جب دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر رہی ہے، کسی بھی ملک کے لیے اپنے آپ کو ایک محدود دائرہ میں سمیٹ لینا ممکن نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں مل کر ایک ایسا حل تلاش کریں جس میں یہودی فلسطینی اور عیسائی اپنے اپنے علاقوں میں چین کی زندگی گزار سکیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطین کی ایک خود مختار ریاست قائم ہو، یروشلم میں اسرائیل کی حدود مقرر کی جائیں اور بیت المقدس کو ایک عالمی شہر کا درجہ دیا جائے جس کا نظم و نسق اقوام متحدہ کے ہاتھ میں ہو اور جہاں تینوں مذاہب کے لوگوں کو عبادت کا حق حاصل ہو ۔٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS