،یہ کتاب 25برسوں کی جاں فشانیوں کا خلاصہ ہے:عقیل الغروی معروف صحافی لئیق رضوی کی تصنیف ”عوامی مرثیے کی روایت“پر مذاکرے کا انعقاد

0

نئی دہلی: (پریس ریلیز) معروف صحافی و ادیب لئیق رضوی کی تصنیف ”عوامی مرثیے کی روایت“پر ایک مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔ غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی کے زیراہتمام غالب اکیڈمی آڈیٹوریم میں منعقدہ مذاکرے کی صدارت سابق صدر شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر خالد محمود کی،مہمان خصوصی کے طور پر آیت اللہ سید عقیل الغروی مدعو تھے، جب کہ مذاکرے کا افتتاح مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے کیا۔ مقررین میں اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول اور شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ پروفیسر احمد محفوظ نے کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات رکھے۔ اس موقع پر غالب اکیڈمی کے سیکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے خیرمقدمی کلمات پیش کیے۔ جاوید مشیری نے سلام پیش کیا جب کہ مشہور شاعر معین شاداب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔  
آیت اللہ سید عقیل الغروی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ لئیق رضوی نے پچیس برسوں کی محنت کے بعد یہ کتاب تالیف کی۔ یہ کتاب پچیس برسوں کی محنت و مشقت کا خلاصہ ہے۔ اس موضوع کو پروجیکٹ بناکر اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تمام اصناف سخن اپنے انداز سے تربیت کرتی ہیں، لیکن مرثیہ آپ کو شقی القلب بننے سے روک لیتا ہے۔ عوامی مرثیے میں غریب،نادار اور ناآسودہ حضرات کے برجستہ جذبات ملتے ہیں۔ مرثیے کی نشتریت صرف انیس کے یہاں ہی نہیں،ان عوامی مرثیوں میں بھی مل جاتی ہیں۔  پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ عوامی مرثیے کی روایت کو لئیق رضوی نے جلا بخشی ہے۔ عوامی مرثیے کی روایت ہمیں بتاہی ہے کربلاہمارے شعور کا نہیں بلکہ لاشعور کا حصہ ہے۔اس کتاب کے اندر خاص بات یہ ہے کہ شمالی ہند، پنجاب، اودھ اور دکن وغیرہ کی بھی روایات اور نمونے موجود ہیں۔ انہوں نے صرف تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ عوامی روایت کا متن بھی پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ایک بات اور دیکھنے کو ملے گی کہ اس میں صرف عوام ہی شامل نہیں ہیں بلکہ بڑے شعراء نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ لئیق رضوی کا یہ کام ان کے سفر کا پہلا پڑاؤ ہے۔ لئیق رضوی نے مختلف میدانوں میں زور آزمائی کی ہے، یہ صحافی بھی ہیں اور ادیب بھی۔ لئیق رضوی کسی کام سے زندہ رہیں یا نہ رہیں لیکن عوامی مرثیے کی روایت انہیں زندہ رکھے گی۔ پروفیسر خالد محمود نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ موضوع میری دلچسپی کا ہے، اس کتاب میں لئیق رضوی نے جو محنت کی ہے یہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کے عنوان میں جذبات کو محسوس کرنا چاہئے فن پر توجہ کی ضرورت نہیں، بنیادی طور پر عوامی مرثیہ فن کی شاعری نہیں بلکہ جذبات کی شاعری ہے۔ پروفیسر شہپر رسول نے کہاکہ میں لئیق رضوی کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، عوامی اظہارات کے مختلف طریقے ہیں، عوامی مرثیوں میں جو سچائی نظر آتی ہے،اس کی مثال نہیں ملتی۔ انیس و دبیر خالصاً مرثیے کے شاعر ہیں،اور اردو میں جو بڑے پانچ عظیم شاعرہیں،ان میں ایک انیس ہیں۔ مرثیہ بہت ہی مالدار صنف ہے۔ جس میں مختلف اظہارملتے ہیں، شہپر رسول نے کتاب کے مختلف ابواب کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور کہاکہ لئیق رضوی نے عوامی مرثیے کی روایت پر جس خوبصورتی سے یہ محققانہ کارنامہ انجام دیا ہے وہ ان کاہی حصہ تھا۔انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ عوامی مرثیوں کا ایک انتخاب بھی اہم کام ہے، جس پر وہ کام کریں اور اسے شائع کریں۔ پروفیسر احمد محفوظ نے کہاکہ لئیق رضوی صحافت کے میدان میں آگیے لیکن علم و ادب کا جو سنجیدہ رویہ رہتا ہے، اسے انہوں نے نہیں چھوڑا اور ادب سے مستقل وابسطہ رہے۔ اس کتاب کے علاوہ تازہ ترین کتاب ترقی پسند ادبی صحافت پر گفتگو ہونی ہے۔اس کتاب کے عنوان میں کافی معنویت موجود ہے، عام طور پر کتابوں کی تصنیف میں اس حد تک محنت نہیں کی جاتی ہے،انہوں نے اپنی نوعیت کا منفرد کام انجام دیا ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ نقش اول ہے، کربلا کا پورا واقعہ ہمارے وجود اور اجتماعی وجود کا حصہ ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر عقیل احمد نے خیرمقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ میں تمامی حضرات کا والہانہ استقبال کرتا ہوں، غالب اکیڈمی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ اہم کتابوں پر مذاکرہ بھی منعقد کرتاہے اور اسی ضمن میں اس کتاب پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف النوع ہے، لئیق رضوی نے اس کتاب پر کافی مشقت کی ہے اور اس کتاب پر گفتگو کی کافی گنجائش موجود ہے۔کتاب کے مصنف لئیق رضوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں غالب اکیڈمی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ خوبصورت محفل سجائی ہے، آقا حسینؑ کی شہادت جب ہندوستان پہنچی تو اس ہندوستان کی دھرتی نے اسے اپنے دل سے لگایا اور ایسا لگنے لگا کہ یہ کربلا جیسے ہندوستان کا کوئی واقعہ ہے۔ ہندوستان کی تمام زبانوں میں کربلائی واقعات موجود ہیں۔ ان کلام کو سن کرمحسوس ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کے کسی اوتار کا ہی واقعہ ہو، فن شاعری کے پیمانے سے قطعہئ نظر یہاں کی علامتین اور زبانیں وہ عوامی مرثیے کی روح ہیں۔مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ شاعری کی روح کربلائی مرثیوں میں موجود ہیں۔ مجھے خلش پیدا ہوئی تو میں نے یہ کتاب مکمل کی۔شرکاء میں سینئر صحافی ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی، طلعت رضوی، ریشما آفتاب، ریسرچ اسکالر فرحت انوار، صدراوغیرہ نے شرکت کی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS