زلزلے سے زیادہ غیر سائنسی تھیوری سے نجات ضروری

0

عبدالسلام عاصم

جہل کی تاریکی پھیلانے کے لیے ہر عہد کی سائنسی ترقی سے فرزانوں نے خوب استفادہ کیا ہے۔ ترکیہ اور شام میں آنے والے اِس صدی کے سب سے ہولناک زلزلوں کے دوران جس میں اب تک 40 ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے اور اس تعداد کے 50 ہزار سے متجاوز ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، اس کی تازہ نظیر سامنے آئی ہے۔ پہلے ایسی تھیوریاں سینہ بہ سینہ زبانی پھیلتی تھیں۔ اب سوشل میڈیا اور اس سے متاثر بعض رجعت پسند اخباری حلقوں میں بے سر پیر کی باتیں بڑے پیمانے پر عام کر دی جاتی ہیں۔
مبنی بر عقائد جذبات کی شدت کا یہ عالم ہے کہ اللہ کی پناہ مانگنے کے روایتی شور میں ساری معقولیت دب کر رہ جاتی ہے۔ دوسری جانب معاملات کے علمی ادراک پر توجہ دینے والوں کو ہمارے اوہام زدہ معاشرے میں قارئین اور سامعین کی زبردست قلت کا سامنا ہے۔ ایسے میں بیدار حلقوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کو ایک دم سے اندھ وشواس کے ہتھے چڑھ جانے سے بچائیں اور اندیشوں کے اندھیرے میں امکانات کی شمع جس قدر ممکن ہو، روشن رکھیں۔
ترکیہ اور شام میں آنے والا رواں صدی کا سب سے بڑا زلزلہ سابقہ موقعوں کے ایسے اندوہناک واقعات سے بالکل مختلف نہیں تھا۔ دیگر قدرتی آفات کی طرح یہ بھی ایک فطری عمل ہے اور اس سے فطری طور پر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف مطلق جانوروں کو کسی ممکنہ ماحولیاتی تبدیلی کا علم ہوجاتا ہے اور وہ حسبِ فطرت سرگرم ہو جاتے ہیں۔ حیوانِ ناطق یعنی انسانوں کو بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اس کی علمی سوچ کبھی کبھی اسے اس قدر گمراہ کر دیتی ہے کہ وہ فطرت کے نہاں رازوں سے آگاہی اور اس سے استفادہ کرنے میں پورے خطے کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
تازہ واقعہ میں ترکیہ اور شام کے تعمیراتی اداروں کے ماہرین سے یہی غلطی ہوئی ہے۔ انہوں نے بلند و بالا تعمیرات کو روایتی مانعِ زلزلہ اقدامات تک ہی محدود رکھا تھا۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنے علم میں اضافے کی توفیق سے محروم تھے۔ وہ اس رُخ پر آگاہی رکھنے کے باوجود رفتارِ زمانہ سے عملاً ہم آہنگ نہیں ہوپائے تھے۔ بصورت دیگر اتنا بڑا نقصان نہیں ہوتا۔ انہیں جاپان اور میکسیکو سے تحریک لینے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی جہاں اس رخ پر ہر ممکنہ تبدیلی کا پل پل جائزہ لیا جانا ایک مسلسل عمل ہے اور اسی کے مطابق تکنیکی انداز بدلے جاتے رہتے ہیں۔ جاپان میں وقفے وقفے سے آنے والے زلزلوں سے انسانی جانوں کے نقصانات کی کہانی اب تقریباً قصہ ٔ پارینہ بن چکی ہے۔ ہاں! اکّا دُکّا جانی نقصان تو کسی بھی حادثے میں پیش آ سکتا ہے۔
زلزلہ کوئی غیبی تادیبی عمل نہیں کہ اسے دعاؤں اور تنتر منتر سے ٹالا جا سکے۔ فطرت کے نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی عین فطری ہے۔ چرند و پرند سبھی کو اپنے اپنے طور پر اس کا ادراک ہوتا رہتا ہے۔ سبھی اس سے بچنے کی اپنے اپنے طور پر صورتیں کرتے رہتے ہیں۔ صرف انسان ایک ایسا جانور ہے جو محدود اور مفاد پرستانہ امکانات کو نظر میں رکھ کر بدانتظامی سے ایسے اندیشوں کی راہ ہموار کرتا ہے جس میں وہ اپنے ساتھ دوسرے جانداروں کو بھی بے موت مرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس کا نظارہ گزشتہ دنوں ہم سب ہمسایہ پاکستان میں آنے والے سیلاب میں دیکھ چکے ہیں جو سراسر بدنظمی کا نتیجہ تھا۔
زلزلے اور طوفان کی صد فیصد درست سائنسی پیشین گوئی قطعی ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علمی جستجو اور تحقیق کا تعلق متحرک کیفیات اور بدلتی ہوئی نفسیات سے ہے۔ سائنس کبھی کسی جامد نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ کام صرف ادعائیت پسند حلقوں کا ہے جوہر مصیبت کو مبینہ بے حیائی یا لڑکیوں کے جینس پہننے کا نتیجہ قرار دے کر سوچنے اور سمجھنے سے نجات پا لیتے ہیں۔
ان جملہ ہائے معترضہ سے آگے بڑھتے ہوئے آئیے دیکھتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں اور بعض حلقوں میں یہ شدید سے شدید تر اور بعض حلقوں میں کم درجے کے کیوں ہوتے ہیں! جہاں تک زلزلے کی حتمی پیش گوئی کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام اس لیے مشکل ہے کہ اس عمل کا تعلق زیرزمین میلوں نیچے دو ارضیاتی پرتوں کی چٹانوں کے متحرک ہونے سے ہے۔ جاری سائنسی معلومات کے مطابق دونوں چٹانیں ایک دوسرے کو دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ عمل جب ٹوٹ پھوٹ تک آگے بڑھتا ہے توقشر الارض سے توانائی کے اخراج کی وجہ سے داخلی ماحول میںشدت پیدا ہوتی ہے اور اخراج کا تباہ کن عمل مختلف شدت والے زلزلے کی صورت میں تباہی مچاتاہے۔ ایسا کب ہوتا ہے یہ پہلے سے معلوم کرنا موجودہ ٹیکنالوجی کے بس میں نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ فطرت کے نظم کی رفتار بڑھانے یا اسے مطلوب مقصد سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کی کوششوں کے بعض غیر موافق نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔
سائنس دانوں نے ویسے تو اس کا نوٹس بہت پہلے سے لینا شروع کر دیا تھا لیکن گلوبل وارمنگ کے بعد اب اس پر کچھ زیادہ سنجیدگی اختیار کرلی گئی ہے۔ زلزلے کا جہاں تک تعلق ہے، اس پر سائنس داں دیگر آفات سماوی سے الگ ہٹ کر غور کررہے ہیں اور آئندہ کے لیے محتاط روش اپنانے پر سبھی سنجیدہ ہیں۔ زلزلے کی محرکات صرف زیر زمیں ہی عمل میں نہیں آتیں، سطحِ زمین پر بھی زمیں کھسکنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اکثر ناہموار علاقوں میں زمین کی سطح پر دیکھا گیا ہے کہ بارش کے بعد اچانک لینڈ سلائیڈ نگ کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ لینڈ سلائیڈ بھی مٹی اور چٹانوں کے درمیان تباہ کُن خلل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہندوستان کے جوشی مٹھ میں زمین دھنسنے کے واقعات نے سائنس دانوں کو کئی محاذوں پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جائے کہ اگر زمین کی سطح پر موجود چٹانوں کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے تو زمین کی سطح سے میلوں نیچے موجود چٹانوں کے بارے میں ایسی پیش گوئی کیسے کی جا سکتی ہے۔
بہر حال مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ کائنات کی تسخیر کے رُخ پر سائنس کے بڑھتے قدم مقصد ایزدی سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ سائنس ہر مسئلے کے حل سے رجوع کرتی ہے۔ اس رُخ پر حتمی شناخت اور رسائی کی صورت بھی قدرت ہی پیدا کرتی ہے۔ علم الانسان مالم یعلم۔ اگر ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں تو پھر کسی جامد نظریہ سے اس پر قطعی غور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس سائنس کا سفر ہمیشہ ارتقائی عمل کے ساتھ ہی دیکھا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ حلقے اس سے کبھی علمی تحریک حاصل نہیں کرپاتے۔ ارتقا کے سفر میں لکڑی، کوئلے، تیل سے بجلی تک کے استعمال اور حد سے سوا استحصال میں زندگی کا سفر نفع اور نقصان دونوں سے گزرا ہے۔ پانی سے بجلی بنانے کا سلسلہ دریاؤں پر ڈیم سے گزرتا ہوا پن بجلی تک پہنچا۔ نیوکلیائی ری ایکشن سے بجلی بننے کے عمل کے آغاز کے ساتھ سائنس دانوں پر قدرتی وسائل کے حد سے سوا استعمال کے منفی نتائج کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ چرنوبل اور جاپان میں رونما ہونے والے سانحات سائنس دانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ثابت ہوئے۔
سائنس کی ترقی سے اختلاف کرنے والوں نے آج تک دنیا کو کچھ نہیں دیا۔ البتہ سائنسی ترقی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے ضرور استعمال کیا ہے۔ دوسری طرف جاپان اور میکسیکو نے زلزلے سے ہم آہنگی کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ ایک سے زائد ممالک اُن سے اس رُخ پر استفادہ کرتے ہیں۔ کوئی دو دہائی قبل ہندوستان میں بھی اے سی کی کھپت کم کرنے کا ایک تجربہ عمارتوں کی تعمیر میں دیواروں کے اندر خلا پیدا کرکے باہر کی گرمی کو راست طور پر اندر جذب ہونے سے روکنے کی کوشش کے تحت کیا گیا تھا۔ یہ کوشش بہرحال ایک حد تک ہی کامیاب ہوسکی۔ آج بھی ایمس کی نرسوں کیلئے تعمیر شدہ ملٹی پلیکس میں رہنے والے شدید گرمی کی تکلیف سے قدرے محفوظ رہا کرتے ہیں۔
ہم حتمی طور پر تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی زلزلہ کب آئے گا، لیکن سائنس داں یہ جاننے کے قریب پہنچ رہے ہیں کہ زلزلے سے پہلے کیا محرکات سامنے آتے ہیں اور کیا کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس میں کچھ لہروں کو گزرنے کے لیے ایک میڈیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ سائنس داں ڈیریک میڈ کا کہنا ہے کہ ایسے کسی اندیشے یا تبدیلی کے ادراک کے بعد زلزلے کے مرکز سے قریب زمین میں سوراخ کر کے خاص طور پر زلزلے کی لہروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح زلزلہ پروف روایتی مکانات کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS