عام انتخابات: کیا بی جے پی منزل حاصل کرپائے گی ؟

0
Image: Times of India

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
3مارچ کو پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں ’انڈیا اتحاد‘کی ’جن وشواس‘ریلی نے بی جے پی کی نیند حرام کردی ہے۔ دراصل کسی کو نہیں پتہ تھاکہ یہ ریلی جس میں دس لاکھ سے زیادہ کا مجمع دیکھاگیا اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں گے ۔ اوراس میں اتحاد کے سارے بڑے لیڈران شریک ہوں گے۔ یہ ریلی 1974ء کی اسی میدان میں ہوئی جے پرکاش نرائن کی مہاریلی کی یاد دلاتی ہے جب انہوں نے اندرا گاندھی کی تاناشاہی کے خلاف تحریک کا بگل بجایاتھا۔ جون 1975ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی ، حزب اختلاف کے تمام لیڈران جیل بھیج دئے گئے تھے اورشدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ 1977ء کے انتخابات میں کانگریس حکومت گر گئی اورجنتاپارٹی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اورکانگریس کا مرکز میں پچیس سالہ اقتدار پر ناقابل شکست قبضہ ختم ہوچکاتھا۔ موجودہ تصویر بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ اُس وقت بھی جمہوریت اور آئین خطرے میں تھا اورآج بھی ساری مشقیں جمہوریت اورآئین کی بقاء کیلئے چل رہی ہیں۔ 3 مارچ کی مہاریلی میں راہل گاندھی، اکھلیش یادو، تیجسوی یادو،لالوپرسادیادو،ملیکاارجن کھرگے ، کمیونسٹ پارٹی کے رہنما یچوری اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے لیڈران موجودتھے۔ سبھی نے اپنی جوشیلی تقاریر کے ذریعہ نہ صرف مہنگائی ، بے روزگاری اور بدعنوانی جیسے مسئلوں کواٹھایا بلکہ ملک کے آئین اورجمہوریت کو بچانے کی بھی عوام سے اپیل کی۔
کچھ دنوں قبل ایسا لگ رہاتھا کہ بی جے پی نے ملک کے عوام کو مذہب کا نشہ پلاکر اورایودھیا میں رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ کرکے اپنے حق میں کرلیاہے اوردوسری طرف نتیش کمار کے بی جے پی میں لوٹنے کے بعد اورمغربی یوپی کے جاٹ آرایل ڈی لیڈر جینت چودھری کے سماجوادی پارٹی کاساتھ چھوڑ کر بی جے پی میں جانے کے بعد انڈیا اتحاد بکھر رہاہے اور این ڈی اے مضبوط ہورہی ہے۔ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس سے نہ صرف بی جے پی کی بدنامی ہوئی بلکہ عوام میں اس کی مقبولیت بھی کم ہوگئی۔ مثلاً حزب اختلاف کے لیڈران کو ای ڈی ، سی بی آئی اورانکم ٹیکس محکمہ کی مدد سے جیل بھیجنا ، ریاست کی غیربی جے پی سرکاروں کو گراکر اوراراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کرکے اپنی سرکار بنانا، سپریم کورٹ کے ذریعہ چندی گڑھ کے میئر کے انتخاب میں کی گئی بے ایمانی کا انکشاف اور جھارکھنڈ وہماچل پردیش کی حکومتوں کو گرانے کی ناکام کوشش اورعدالت عظمیٰ کا الکٹورل بانڈ کی اسکیم کو غیرآئینی قرار دینا ، کچھ ایسے حقائق ہیں جس نے وزیراعظم نریندرمودی کو بے نقاب کردیا۔ ان کے تئیں ہندوؤں کی عقیدت بھی تب کم کمزور پڑگئی جب انہوں نے چاروں شنکر آچاریوں کی مرضی کے خلاف ایودھیا رام مندر کی پران پرتشٹھا کی۔ دوسری جانب انڈیا اتحاد میں تقریباً تمام ریاستوں میں سیٹوں کی تقسیم سے متعلق قرار ہوچکاہے۔ این ڈی اے میں آج تک اتحاد کے کسی شراکت دار سے سیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوپایاہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ اورمرکز کے بیچ راج بھر اورجینت چودھری کے ایم ایل ایز کو یوپی کابینہ میں شامل کرنے کیلئے جو تنازعہ چل رہاہے وہ کسی سے چھپا ہوانہیںہے۔ وزیراعظم مودی اورامت شاہ موقع کی تلاش میں ہیں کہ کس طرح یوگی ادتیہ ناتھ کو ہٹاکر کیشو پرساد موریہ کو یوپی کا وزیراعلیٰ بنادیا جائے۔ اندیشہ ہے کہ کہیں یوگی ہی یوپی میں بی جے پی کیلئے خطرہ نہ بن جائیں۔
ایسا معلوم ہورہاہے کہ نریندرمودی آہستہ آہستہ پارٹی اراکین کا بھروسہ کھورہے ہیں۔ یہ بات ابھی 195نشستوںکی جو لسٹ جاری کی گئی ہے ، اس سے ظاہر ہوتی ہے۔ پارٹی کے لیڈران اب ان کا حکم ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ سبرا منیم سوامی جیسے لیڈر نے نریندرمودی سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیاہے۔ پہلے مودی کا ارادہ تھا کہ یوپی میں کم ازکم پچاس سیٹنگ ایم پی کو ٹکٹ نہ دے کر نئے اوردوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے اراکین کو ٹکٹ دیں گے لیکن اب چونکہ ان کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ نئے امیدوار انتخاب جیت پائیںگے اس لئے چارپانچ نشستوں کو چھوڑ کر سارے موجودہ ممبران پارلیمنٹ کو انہوںنے ٹکٹ دے دئے ہیں۔ بی جے پی کی دوسری مصیبت یہ ہے کہ بہت سے لیڈر الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مثلاً گوتم گمبھیر اور جینت سنہا (یشونت سنہا کے لڑکے) نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیاہے۔ کچھ قدآور لیکن بدنام لیڈران کے ٹکٹ کاٹ دئے گئے ہیں۔ جیسے گونڈہ کے برج بھوشن شرن سنگھ جن کے خلاف خاتون پہلوانوں کے جنسی استحصال کا الزام ہے ، کو ٹکٹ نہیں دیاگیا۔ سادھوی پرگیہ جن کے خلاف نہ صرف دہشت گردی کاالزام ہے بلکہ جس نے ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھگت بتایا اور کرکرے کی شہادت ان کے خلاف اپنی بددعا کا نتیجہ بتایا، کا بھی ٹکٹ کاٹ دیاگیا۔ میناکشی لیکھی کا دہلی میں ٹکٹ کاٹ دیاگیا اوران کی جگہ پر بانسری سوراج (ششماسوراج کی بیٹی) جو کہ ایک ایڈوکیٹ ہیں، کو ٹکٹ دے دیاگیا۔ جنوبی دہلی سے رمیش بدھوڑی جس نے بی ایس پی ایم پی دانش علی کو …دہشت گرد تک کہہ دیاتھا، کا ٹکٹ کاٹ دیاگیا۔ جونپور کے ایم پی دھننجے سنگھ کو ٹکٹ نہیںدیاگیا۔ ان کی جگہ پر کرپا شنکر سنگھ کو ممبئی سے بلاکر ٹکٹ دیاگیا۔ جن لوگوں کو بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا ، اندر کی بات یہ ہے کہ ان کا کام ہوگاکہ اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز باتیں کرکے معاشرہ کو تقسیم کرنا جس سے بی جے پی کو الیکشن میں فائدہ پہنچے۔ مودی جی کا ارادہ تھا کہ جولوگ ستر برس کے اوپر کے ہیں ان کو ٹکٹ نہ دیاجائے لیکن قابل فتح امیدواروں کے فقدان کے سبب انہیں اس ضابطہ کو توڑناپڑا۔ جیسے جگدمبکا پال جن کی عمر 75برس سے زیادہ ہے۔ کو ٹکٹ حاصل ہوا۔ ہیمامالنی (75سال)کو متھرا سے ٹکٹ دیاگیا جبکہ وہ اپنی ایم پی والی ذمہ داری نبھانہیں پاتیں، وہ زیادہ تر ممبئی میں ہی رہتی ہیں۔ پرگیا سنگھ کاٹکٹ کاٹ کر ساکشی مہاراج کو ٹکٹ دیاگیاجن کی عمر 75برس سے تجاوز کرگئی ہے۔ اجے مشرا ٹینی جن کا تعلق لکھیم پور سے ہے اورجن کے بیٹے نے کسانوں اورایک صحافی کو اپنی گاڑی سے روند دیاتھا، کو بھی ٹکٹ دے دیاگیا جو کہ بالکل غیرمناسب ہے۔ شاید ستر سال سے اوپروالوں کو ٹکٹ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نریندرمودی جو خود اس عمر کو تجاوز کرچکے ہیں ،اگراس ضابطہ کو سختی سے نافذ کرتے تو وہ خود بھی الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہتے۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق ملک کے 74فیصد لوگ حکومت سے ناخوش ہیں۔ نیوز18نے ایک سروے کیا جس میں پوچھا گیاتھا کہ آپ نریندرمودی کو وزیراعظم کی حیثیت سے دیکھناچاہتے ہیں یا راہل گاندھی کو ۔ پہلے 13ہزار سیمپل لئے گئے جس میں نریندرمودی کو 21فیصد ووٹ ملے جبکہ راہل گاندھی کو 65فیصد ۔ بعد میں 37ہزار سیمپل لئے گئے جس میں نریندرمودی کو 22فیصد ووٹ ملے جبکہ راہل گاندھی کو 67فیصد حاصل ہوئے۔ کبھی کبھی کچھ ایسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں جو حکومت کی بدنامی کی فوری وجہ بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ ہی دنوں قبل آر او اورڈپٹی آراو کے امتحان ، پولیس بھرتی کے امتحان اوریوپی بورڈ کے امتحان میں پیپر لیک ہونے کی جو خبر آئی اس سے ملک کا نوجوان طبقہ سڑک پر آگیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک کے اکثریٹ ووٹر نوجوان ہی ہیں جو اپنے روزگار کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان حالات میں بی جے پی کا 370اور400 سیٹوں کا دعویٰ کھوکھلا ہی لگتاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS