غزہ:لبریز ہوتا صبر کا پیمانہ

0

گزشتہ 4ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل فلسطینیوں پر جو وحشیانہ بمباری کررہا ہے اس نے گزشتہ 75سال کی تاریخ کے تمام ریکارڈوں کو توڑ دیے ہیں۔ کھانا لینے گئے عورتوں ، بچوں اور نوجوان کے ہجوم پر جس بربریت کے ساتھ اسرائیل کی فوج نے کارروائی کی ہے اس سے پوری دنیا تلملا اٹھی ہے۔ اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ امریکہ اور خالق برطانیہ بھی اس کی بربریت کے آگے اپنے آپ کو بے بس پارہے ہیں۔ امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس جو کہ اب تک اسرائیل کے دفاع میں پیش پیش تھیں اور بڑھ چڑھ کر یہ جملہ دہراتی تھیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، آج یہ کہنے کو مجبور ہوگئی ہیں ۔غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اگرچہ اسرائیل اس بیان کو خارج کرچکا ہے۔ اس نے واضح کردیا ہے کہ اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
اسرائیل کے ایف 16جنگی جہازوں نے شمالی غزہ کے جبالیہ کیمپ میں ایک عارضی قبرستان پر بم برسا کر تباہ کردیا، اس بمباری کے لے بہت سی لاشیں بکھرتی گئیں اوران کے اعضاء ادھر ادھر پڑے ملے۔ حماس نے کہا ہے کہ نہ وہاں میزائل تھے نہ مزاحمت صرف شہداء کی لاشیں اور کفن تھے۔ اسرائیل نے مصر میں ہونے والے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کو لے کر ہونے والے مذاکرات میں شرکت سے انکار کردیا ہے اور اس نے واضح کردیا ہے کہ وہ بہت جلد ہی رفح میں اپنی زمینی فوجی کارروائی شروع کردے گا۔ اسرائیل نے جمعرات کے روز کھانا لینے کے لیے گئے لوگو ںکے ہجوم پر فائرنگ کے دلخراش واقعہ کی تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ کچھ خبریں ایسی بھی آرہی ہیں کہ اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کا پایہ تخت ہل رہا ہے۔ بنجامن نیتن یاہو کے خلاف مظاہروں میں شدت آئی ہے اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی نے اپوزیشن سے ملاقات کی ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی خبریں گشت کررہی ہیںکہ اسرائیل کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز فوجی افسران نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان میں سب سے بڑا نام اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری کا ہے۔ اگرچہ ان خبروں کی کسی اور ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن اسرائیل جیسے ملک میں فوج کے عہدے داروں کاسیاسی معاملات میں بیان دینا یا اظہار ناراضگی نااتفاقی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
پچھلے دنوں جب اسرائیل کے وزیراعظم اپنی کرسی بچانے کے لیے ’’ جوڈیشیل اصطلاحات ‘‘ متعارف کرا رہے تھے تو اس کے خلاف بڑی تعداد میں فوجی افسروں نے ناراضگی ظاہر کی تھی۔ حتیٰ کہ اسرائیلی فوج کے جہاز اڑانے والے پائلٹوں اور افسران نے علامتی ہڑتال کے ذریعہ اپنا رخ واضح کردیا تھا کہ اس کے علاوہ دنیا بھر میں قائم اسرائیل کے سفارت خانوں میں تعینات سفیروں اور دیگر سفارتی عملے نے بھی مختلف ملکوں میں اپنی خدمات کو موقوف کردیاتھا۔ بہر کیف اسرائیل کے باہر جو ناراضگی بڑھ رہی ہے وہ غیر معمولی سطح کی ہے کیونکہ اسرائیل غیر معمولی سطح کے مظالم کر رہا ہے۔ اس کے اثرات بھی غیر معمولی ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ ودیگر اسرائیل نواز ملکوں میں فوجی کارروائی پر ناراضگی کے تمام حدود کو پار کرر ہے ہیں۔ ادھر حماس نے قرب وجوار کے ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس جارحیت سے باز رکھنے کے لیے فوجی کارروائی کرے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مصر اور اردن نے ہوائی جہازوںسے غزہ میں ضروری اشیا کے رسد گرائی ہے۔ اگرچہ فرانس بھی اس کام میں پیش پیش ہے اور اس کے ہوائی جہاز مختلف علاقوں میں کھانے پینے کے سامان ، ادویات وغیرہ گرا رہے ہیں۔ ادھر امریکہ نے بھی دو روز قبل اسی قسم کی ایک مہم شروع کی ہے۔ جس کے ذریعہ وہ غزہ میں رسد گرا رہا ہے۔ یہ صورت حال اسرائیل کے لیے اچھی نہیں ہے۔ ایک فلسطینیوں کی نسل کشی میں مددگار بن رہے ہتھیاروں کی سپلائی اور پھر مظلوم کے لیے رسد سپلائی بھی کی جا رہی ہے۔
امریکہ کا یہ رویہ نکتہ چینی کا سبب بنتا جا رہا ہے اور اس پر دبائو پڑ رہا ہے کہ وہ غزہ میں جو رسد گرا رہاہے وہ ان معنوں میں بے معنی ہیں جب تک کہ وہ اسرائیل کو فوجی امداد اور مالی امداد نہ روک دے۔ کئی حلقے امریکہ پر سخت نکتہ چینی کررہے ہیں۔ امریکی فوج کے ایک سپاہی ایرون بشنیل کا اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خود سوزی کرنے کے واقعہ نے پوری دنیا میں ایک تہلکا سا مچا دیا ہے۔ امریکہ کے کئی فوجی اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں اور امریکی ایئرمین کے بعد واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر امریکی فوجیوں کے ذریعہ مسلسل احتجاج ہورہے ہیں۔ امریکی فوج کے موجودہ اور سابق فوجی اس واقعہ پر شدید رد عمل ظاہر کررہے ہیں۔ کئی دنوں سے سفارت خانے کے باہر فوجی یونیفارم جلانے کے واقعات ہورہے ہیں۔ یہ صورت حال اسرائیل سے زیادہ امریکہ کے لیے تشویشناک ہے۔ امریکہ میں اس وقت صدارتی انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی جوکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلہ میں اسرائیل نوازی میں زیادہ پیش پیش ہے۔ اس معاملہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ اور نکی ہیلی اس وقت امیدوار بننے کی ہوڑ میں شامل ہیں اور جو بائیڈن کا ان دونوں میں سے کسی ایک سے مقابلہ ہوگا۔ جوبائیڈن پر جس طرح تمام طبقات کی طرف سے غزہ کو لے کر نکتہ چینی ہورہی ہے اس کے مقابلے میں ری پبلیکن پارٹی محتاط انداز سے چل رہی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جوبائیڈن کی مخالفت غزہ جنگ کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ مشی گن میں اس کے اثرات سب سے زیادہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کا کتنا فائدہ جو بائیڈن کے مخالفوں کو ہوگا اس بابت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ امریکی ارباب اقتدار میں اس صور ت حال کو چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ محض چار ماہ کی جنگ میں 30ہزار سے زیادہ افراد کا بے رحمانہ قتل اہل غزہ کو روٹی ، پانی ، ایندھن اور بجلی وغیرہ سے محروم رکھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسرائیل کو کسی کی پروا نہیںہے۔ نہ اپنے خالق (برطانیہ) اور نہ سرپرست اعلیٰ کی۔ رمضان قریب ہیں اور اسرائیل ، حماس ، فلسطینی اتھارٹی اورتمام براہ راست یا بالواسطہ طورپراس تنازع میں اثرورسوخ رکھنے والے ممالک پر شدید دبائو ہے، مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال فلسطینیوں کے جان ومال کے مزید نقصان کو روک پائے گی یا نہیں۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS