فیب اشتہار پر ہنگامہ ہندوستان کی جامع ثقافت اور آئینی اقدار پر حملہ

0
Image: Financial Express

اردو دشمنی تعصب پر مبنی
فیب اشتہار پر ہنگامہ ہندوستان کی جامع ثقافت اور آئینی اقدار پر حملہ ہے
مینا آنند
موجودہ عہد میں تفریق وتعصب کی ایک سے ایک مثال سامنے آرہی ہے۔ فرقہ پرست اور رجعت پسند طاقتیں موقع بہ موقع سراٹھاتی رہتی ہیں۔ اسی سے متعلق فیب انڈیاکا اشتہار بھی ہے۔ فیب انڈیا کپڑا کی صنعت میں بہتریں مثال ہے۔ اس کمپنی نے دیوالی کے موقع پر ایک اشتہار’جشن رواج ‘‘کے نام سے جاری کیاجس پر اختلافات کا بازار گرم ہوا۔ یہ دیوالی روشنی اورمحبت کا پیغام ہے ،یہ اردو کے سہارا فروغ دینے کی کوشش کی گئی جسے ناپسند کیا گیا۔ فیب انڈیا کے ٹویٹ پر ہنگامہ ہوا اور اس کمپنی پر’ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے‘اور ہندو تہواروں پرالگ رنگ چڑھانے کاالزام عائد کیا گیا۔ فیب انڈیا نے ہنگامہ آرائی کےبعد اپنے ٹویٹ کو ڈلیٹ کردیا۔سوال یہ ہے کہ اس ہنگامہ آرائی سے ہندوؤں کے جذبات کو تسکین حاصل ہوگئی؟
بات یہیں ختم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں تعصب اور چھوٹی سوچ کے خلاف بات کرنی چاہیے۔ ہندو رسم و رواج خطرے میں نہیں ہیں۔ وہ صدیوں سے ہیں اور صدیوں سے ترقی کررہے ہیں۔ پھل پھول رہے ہیں، جس چیز پر واقعی حملہ کیا جا رہا ہے وہ رواداری اور بقائے باہم کے معاملات ہیں،جس سے ہندوستانی خاندان کو نقصان کا سامنا ہے۔ اتفاق سے میں ایک ہندو ہوں اور مجھے ہندو مت پر فخر ہے۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ میں ایک قابل فخر ہندوستانی ہوں،جس سے ہمارے ثقافتی اخلاق اور متحرک آئین کی بہت تعریف ہوتی ہےجو منفرد ہندوستانی فلسفے کی عکاسی کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 15Af میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری کا بنیادی فرض ہے،اور خاص طور پرریاست کا فرض ہے کہ ہماری جامع ثقافت کے بھرپور ورثے کی قدر اور حفاظت کرے۔
اس پہلو پر بات کرنا مناسب ہے کہ آئین ہماری جامع ثقافت، عظیم ذہنوں،روایات اور عقائد کے امتزاج کی میراث کی پرورش اور حفاظت کی بات کرتا ہے۔ فیب انڈیا نے نہ ہندوستانی ثقافت کے خلاف کچھ کیا ہے اور نہ ہی آئین کے خلاف کچھ کیا ہے۔ اس تناظر میں جواہر لال نہرو کا حوالہ دینا مناسب ہے۔ دی ڈسکوری آف انڈیا میں انہوں نے لکھا: لہذا ہندوستانی ثقافت کو صرف ہندو ثقافت کے طور پر حوالہ دینا مکمل طور پر گمراہ کن ہے۔ ہندوستانی ثقافت کی اہم خصوصیات کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کیرالہ ایجوکیشن بل کیس میں،ہندوستان کی مخصوص ثقافتی اقدار کو اجاگر کیا،ٹیگور کے اے ہیومن سے لے کر ہندوستان تک:” ہر عہد میں متنوع عقیدوں، ثقافتوں اور نسلوں کے لوگوں کا سیلاب یہاں آیا- آریائی اور غیر آریائی، دراوڑی اور چینی، سیتھیائی، ہن، پٹھان اور مغل وغیرہ سب دور دراز علاقوں اور موسموں سے اس قدیم سرزمین پر آئے ہیں۔ بھارت نے ان سب کو خوش آمدید کہا۔ وہ ملے اور اکٹھے ہوئے، ایک دوسرے میں ضم ہو گئے اور ایک جسم کے مابند بنتے چلے گئے۔ اس طرح ہندوستان کی روایت کو مندرجہ ذیل عمدہ سطروں میں بیان کیا گیا ہے: انسانیت کے اس وسیع سمندر کے کنارے سے کسی کو بھی نہیں ہٹایا جائے گا جو ہندوستان ہے۔
سپریم کورٹ نے تصدیق کی کہ ہندوستان دراصل باصلاحیت افراد، تمام عقائد اور ثقافتوں سے ادغام کے بعد اتحاد پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔
ان تمام باتوں کے بعد فیب انڈیا اوراردو کے فقرے کی طرف مراجعت کرنا چاہیے، جس نے شور و غوغا پیدا کیا۔ یہاں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اردو ہندوستان کی ایک سرکاری زبان ہے جو آئین کے آٹھویں شیڈول میں درج ہے۔ اردو ہندوستانی “جامع ثقافت” کا ایک موروثی عنصر ہے۔ اس ثروت مند ورثے کی حفاظت ازروئے آئین لازمی ہے۔ یہاں ہندوستان کے نائب صدر وینکیا نائیڈو کے الفاظ کو پیش کرنا مناسب ہے: اردو زبان تمام ہندوستانیوں کا ثقافتی ورثہ ہے۔ اس کا تعلق کسی ایک مذہب سے نہیں بلکہ پورے ملک سے ہے۔اردو دنیا بھر میں بولی جانے والی خوبصورت ترین زبانوں میں سے ایک ہے”۔ (جنوری 2017) ہندوستان میں تہوار یکجہتی کے جذبے سے منائے جاتے ہیں۔ دیوالی،عید،کرسمس،ہولی وغیرہ یکجہتی کی کچھ مثالیں ہیں۔ تمام مذاہب کے لوگ ان تہواروں میں شامل ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں۔ دعوت دیتے ہیں۔ خوشی مناتے ہیں۔
خاص طور پربجے حدود اور بھید بھاؤ نہیں جانتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ دیوالی روشنیوں کا تہوار ہے۔ اندھیرے ذہنوں پرروشنی پڑنی چاہیے اور تمام ترعقائد اورروایات کو شامل رکھتے ہوئے اس کی خوشی دوبالاکرنی چاہیے

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS