ملک کی پہلی مسلم خاتون ریسلنگ کوچ فاطمہ بانو

0

اندور :ملک کی واحد مسلم ریسلنگ کوچ فاطمہ بانو نے اتوارکو اپنا 45واں یوم پیدائش منایا اس موقع پر مدھیہ پردیش کے ارجن ایوارڈ یافتہ کوچ کرپا شنکر سمیت اہم شخصیات نے مبارکباد دی ہے ۔
فاطمہ نے معاشرے میں گھر سے ہونے والی مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے ریسلنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور ملک کی پہلی خاتون ریسلنگ کوچ بن گئیں۔ آج
فاطمہ بھوپال میں ریسلنگ کی بہترین کوچ کی حیثیت سے کام کررہی ہیں ۔ملک اور مدھیہ پردیش میں ریسلنگ کی کامیابیوں میں اضافہ کیا ہے۔ مذہب کی بندشوں کو توڑ کر ملک میں پہلی مسلمان خاتون ریسلنگ کوچ بننے کا اعزاز حاصل کیا اور اپنے خرچ پر بین الاقوامی سطح کی خواتین ریسلنگ کھلاڑیوں کا ایک گروپ تشکیل دیا۔ قومی تربیتی کیمپ میں گیتا ببیتا پھوگاٹ اور ساکشی ملک جیسی مشہور پہلوانوں کو بھی تربیت دی ہے۔
فاطمہ ابتدا میں جوڈوکی کھلاڑی تھیں۔ 45 سالہ فاطمہ نے 1997 میں کشتی شروع کی تھی۔ ان کے والد سید نصراللہ بی ایچ ایل میں تھے اور والدہ نشا بانو گھریلو
خاتون تھیں۔ فاطمہ کو مدھیہ پردیش کا 2001 میں اعلی کھیل ایوارڈ ’’وکرم ایوارڈ ‘‘سے نوازا گیا ہے اور وہ اس مقام کو حاصل کرنے والی مدھیہ پردیش کی پہلی پہلوان ہیں۔ 2004 سے 2016 تک مدھیہ پردیش کے محکمہ کھیل میں کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں اور 2002 میں کوچ کی حیثیت سے اپنی
دوسری اننگز کا آغاز کیا اور گاوں سے دیہی علاقوں میں ایسی خواتین کی صلاحیتوں کے ذریعہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر متردد تمغے جیتنے میں کامیاب رہیں۔
1975 میں پیدا ہوئی فاطمہ بچپن سے ہی بہتر قدوقامت کی مالک تھیں انہوں نے کھیلوں کا آغازخواتین کی کبڈی سے کیا اورمدھیہ پردیش کے لئے تین نیشنل مقابلے
کھیلے۔کبڈی میں ہاتھ آزمانے کے بعد انہوں نے جوڈو کے انتخاب کیا تھا انہوں نے مدھیہ پردیش کے 10 قومی مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ پھرسوچا کیوں نہیں کہ
کچھ مختلف کریں اور کشتی سیکھیں۔جب فاطمہ نے ریسلنگ سیکھنا شروع کی تو انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ اس کے بعد بھی فاطمہ اپنے والد سید نصر اللہ
مسلمان لڑکیوں کو اکھاڑے میں لانا کوئی چھوٹا کام نہیں تھا۔ میں گھر گھر گھومتی اور بچوں کے والدین سے التجا کرتی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو ریسلنگ سکھائیں۔ آپ سمجھ
سکتے ہیں کہ لڑکیوں کو اکھاڑے میں بھیجنے کے لئے مجھے کن کن کاموں کا سامنا کرنا پڑا ہے،لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور اپنے مقاصد کو جاری رکھا۔
مردوں کے کھیل کے طور پر 'ریسلنگ' کو منتخب کرنے کے بارے میں میرے پاس قطعی طور پر کوئی قابلیت نہیں ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میں ملک کی پہلی مسلم
خاتون ریسلنگ کوچ بھی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ آنے والے وقت میں مدھیہ پردیش کی لڑکیاں تمغے جیتیں اور زیادہ خوشی اس  وقت ہوگی جب ایک مسلمان لڑکی کے گلے
میں میڈل ہوگا،تب میرا مقصد پورا ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS