کسانوں کا بھارت بند

0

آجکسان متحدہ محاذ کی طرف سے پھر بھارت بند ہے۔ 40کسان تنظیموں پر مشتمل متحدہ محاذ نے بند کو کامیاب بنانے کی اپیل کی ہے۔ کانگریس، بائیں محاذ، تلگو دیشم، بہوجن سماج پارٹی، وائی ایس آر کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں سمیت حکومت آندھرا پردیش نے بھی بند کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ کسان پہلے بھی بھارت بند کراچکے ہیں لیکن اس بار کا بھارت بند کافی تیاریوں کے بعد کیا جارہا ہے۔اس لئے کسانوں کو کافی امیدیں وابستہ ہیں۔کسان صرف راجدھانی دہلی کے سنگھو اورٹیکری بارڈر پر ڈٹے نہیں ہیں، بلکہ اس کے لیڈران دہلی سے باہر دھرنا ، مظاہرہ اورمہاپنچایت کرتے رہتے ہیں ۔انہوں نے 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میںبھی گھوم گھوم کر بی جے پی کو ہرانے کی اپیل کی تھی۔اگرچہ ابھی تک کسان اپنی مانگ سرکار سے منوانہیں سکے لیکن حمایت کا دائرہ کافی بڑھالیا ۔ ان کی جہاں بھی مہاپنچایت ہوتی ہے یا دھرنا دیتے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں کسان شرکت کرتے ہیں۔ جیساکہ مظفر نگر کی مہاپنچایت اور کرنال کے دھرنے میں سب نے دیکھا۔اس سے کسانوں کے حوصلے تو بلند ہیں،لیکن مرکزی سرکار زرعی قوانین واپس لینے کو تیار نہیں ہے۔اسی کشمکش میں تقریباً 11مہینے گزرگئے لیکن کسان جھکنے کوتیار نہیںہیں ، وہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ اگلے پارلیمانی انتخابات بلکہ ضرورت پڑی تو 10برسوں تک تحریک چلائیں گے۔ کیسے اورکب مسئلہ حل ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ 14اکتوبر 2020سے 22جنوری2021کے دوران 11 دور کی بات چیت کے بعد اس کا سلسلہ بند ہے ۔ اب تو دونوں شاذ ونادر ہی اس پربولتے ہیں ۔ایسالگتا ہے کہ دونوں کی اس میں دلچسپی نہیں ہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ سرکار نے کسانوں سے بات چیت کئے بغیر جلد بازی میں کورونا لاک ڈائون کے دوران گزشتہ سال آرڈیننس کی صورت میںزرعی قوانین کو نافذ کیاتھا پھر ستمبر 2020 میں اکثریت کی بنیادپر پارلیمنٹ سے بلوں کواس وقت منظوری دلائی جب 9اگست سے ہی کسان سڑکوں پر آگئے تھے۔ سرکارنے اپنا کام کردیا ، مسئلہ اس وقت پیداہوا جب کسانوں نے دھرنا مظاہرہ شروع کیا ۔شروع میں کسانوں کا دھرنا پنجاب تک محدود تھا،لیکن جیسے ہی دہلی کوچ کیا اورسنگھو وٹیکری بارڈر سے احتجاج ومظاہرہ شروع کیا، ان کی تحریک ملک گیر ہوگئی۔حالانکہ اب بھی تحریک میں شامل لوگوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب، ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور اتراکھنڈ سے ہے ۔ لیکن جب بھی اورجہاں بھی وہ پروگرام کرتے ہیں ،مقامی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔
دہلی کی سرحدوں پر تحریک کو 10مہینے ہوچکے ہیں ۔کسان چاہتے ہیں کہ سرکار تینوں زرعی قوانین واپس لے اورایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دے ۔جبکہ سرکار قوانین میں ترمیم کے لئے کئی بار پیش کش کرچکی ہے لیکن واپس لینے کو تیار نہیں ہے ۔ اسی طرح ایم ایس پی کی زبانی گارنٹی کی بات تو کرتی ہے لیکن قانونی نہیں۔ اس معاملہ پر جب سرکار اورکسانوں کے درمیان 11دورکی بات چیت چل رہی تھی تو کئی مواقع ایسے آئے جب لگ رہاتھا کہ پیش رفت ہورہی ہے اورکوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا لیکن آخر کار نہ صرف بات چیت ناکام ہوگئی بلکہ بند بھی ہوگئی ۔اس دوران سپریم کورٹ نے امسال جنوری میں قوانین کے نفاذ پر روک لگادی جس کا کسان تنظیموں نے خیرمقدم کیالیکن جب کورٹ نے مسئلہ کے حل کیلئے کمیٹی بنائی تو کسانوں نے کمیٹی سے بات چیت نہیں کی۔ کمیٹی نے اپنی تجاویز اورسفارشات رپورٹ کی شکل میں کورٹ میں پیش کردی جو اب تک منظر عام نہیں آئی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سرکار نے قوانین کو ڈیڑھ سال تک معطل کرنے کی تجویز پیش کی تھی تو کسانوںنے مسترد کردیاتھا۔ ابھی تک مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف 6ریاستیں کیرالہ، پنجاب، مغربی بنگال، راجستھان، دہلی اورچھتیس گڑھ اسمبلی میں قرارداد منظور کراچکی ہیں جبکہ پنجاب، چھتیس گڑھ اورراجستھان نے مرکزی قوانین کے مدمقابل بلوں کو اسمبلی سے پاس کرایا لیکن گورنرنے منظوری نہیں دی ۔ جب سے تحریک شروع ہوئی ہے ،صرف ایک بار 26جنوری کو ٹریکٹر پریڈ کے دوران ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے کسان بیک فٹ پر آئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ بہت سنبھل کر قدم اٹھارہے ہیں ، اسی لئے بھارت بند کے لئے باقاعدہ گائیڈلائن جاری کی گئی ہے ۔ مظفر نگر کی مہاپنچایت کی کامیابی اورکرنال کی جیت سے کسانوں کا حوصلہ کافی بڑھا ہواہے ۔ سرکار اورکسانوں دونوں کے لئے بہت مشکل ہے ڈگرپن گھٹ کی اورزرعی قوانین دونوں کیلئے ایک طرح سے وقار کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ اسی لئے بحران حل نہیں ہورہا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS