یوروپ: سیلاب کی تباہ کاری!

0

قدرتی آفات بتاکر نہیں آتیں۔ دنیا کا ایک علاقہ قدرتی آفتوں سے تباہ ہو تو اندیشہ دوسرے علاقوں کے بھی تباہ ہونے کا رہتا ہے مگر زلزلہ اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ اگر کی جاتی تو کامیابی اسی طرح ملتی جیسے ’ٹائی ٹینک‘ کے آئس برگ سے ٹکرانے اور ڈوب جانے کے بعد سمندری سفر کو محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی تھی تو اس میں بڑی حد تک کامیابی ملی تھی۔ اصل میں پچھلی چند دہائیوں میں یوروپی ملکوں میں ایک سے زیادہ بار زلزلے تو آئے مگر اتنا تباہ کن سیلاب نہیں آیا جیسا دنیا کے دیگر حصوںمیں آتا رہتا ہے، اس لیے یوروپی ملکوں کے لیڈروں کو یہ اطمینان سا رہا ہے کہ ان کا ملک سیلاب سے محفوظ ہے، یہ اطمینان اس بار پارہ پارہ ہو گیا ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ یہ یوروپ کی 100 سال کی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب ہے۔ تادم تحریر مغربی یوروپ کے 157 لوگ سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں لاپتہ ہیں۔ اقتصادی طور پر یوروپ کے سب سے مستحکم ملک جرمنی میں سیلاب نے 133 لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ بلجیم میں 24 لوگوں کی اموات کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ لگژمبرگ اور نیدرلینڈس سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہیں۔ حالات سے نمٹنے کے لیے یوروپ کے ایک سے زیادہ ملکوں میں فوجیوں کو تعینات کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’ماہرین کا کہنا ہے کہ یوروپ کے کئی علاقوں میں شدید بارشوں اور سیلابوں کے حالیہ سلسلے کی وجہ آب و ہوا کی تبدیلی ہے۔ دنیا میں صنعتی ترقی کے بعد سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔۔۔۔بڑھتا ہوا درجۂ حرارت شدید موسموں کا سبب بن رہا ہے۔ اگر اقوام بالخصوص ترقی یافتہ ملکوں نے کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی نہ کی تو اس صدی کے آخر تک کرۂ ارض پر زندگی محال ہو جائے گی۔‘
2016 میں بھی مغربی یوروپ میں سیلا ب نے تباہی مچائی تھی اور ایک سے زیادہ ملکوں کے لوگوں کو پریشان ہونا پڑا تھا مگر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں نہیں گئی تھیں۔ اس سال جرمنی میں 18لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں۔ فرانس، رومانیا اور بلجیم بھی متاثر ہوئے تھے۔ اس وقت بھی یہ بات موضوع بحث بنی تھی کہ کیا ماحولیاتی تبدیلی سیلاب لانے کی وجہ بن رہی ہے اور سائنس داں تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ماضی کے مقابلے مستقبل میں سیلاب کا اندیشہ 80 سے 90 فیصد زیادہ ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے باوجود یوروپ، بالخصوص مغربی یوروپ کے ملکوں نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں زیادہ گمبھیرتا دکھائی؟ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 22 اپریل، 2016 کو پیرس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ یہ 4 نومبر، 2016 سے عمل میں بھی آ گیا تھا۔ اس سے 191 ممبروں کی وابستگی نے یہ امید بندھائی تھی کہ حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئے گی لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی مدت صدارت میں 2020 میں امریکہ نے اس سے علیحدگی کا اعلان کرکے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ طاقتور ملکوں کے لیڈران عالمی فلاح و بہبود کی باتیں ضرور کرتے ہیں مگر فیصلے وہ اپنے ملک اور اپنے سیاسی مفاد کے مدنظر ہی لیتے ہیں۔
خیر، 2021 میں امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے پھر سے پیرس معاہدے سے وابستگی کا اعلان کر دیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ رہی کہ بائیڈن چین کے خلاف یوروپی ملکوں کا مستحکم محاذ بنانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی بات امریکہ اور یوروپی ملکوں کے درمیان پھانس کی طرح حائل رہے۔ توقع یہ ہے کہ آنے والے وقت میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ اور یوروپی ممالک سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے، یوروپی ملکوں نے خوداس بار سیلاب سے ہونے والی بڑی تباہی کا نظارہ کیا ہے، چنانچہ یہ توقع بھی کی جانی چاہیے کہ وہ ان ملکوں کو سیلاب سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے جنہیں ہر سال اس کی وجہ سے کافی جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سیلاب سے متاثر ہونے والے ملکوں میں وطن عزیز ہندوستان بھی شامل ہے۔ اس کی ریاست بہار کے شمالی حصے کے 76 فیصد لوگ سیلاب کے خوف میں جینے پر مجبور رہتے ہیں۔ سیلاب آسام کے لوگوں کو بھی ڈراتا ہے۔ 2020 میں آسام کے 33 میں سے 30 اضلاع سیلاب سے متاثر تھے تو 26,395 میں سے 5,474 گاؤں کے لوگوں کو سیلاب نے بہت پریشان کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ این آر سی میں آسام کے بہت سے لوگ اس لیے بھی شہریت ثابت کرنے کے لیے ضروری کاغذات پیش نہیں کر پائے تھے کہ وہ کاغذات سیلاب کی نذر ہو گئے تھے۔ اس وقت یہ اندازہ ہوا تھا کہ سیلاب سے زندگی بچ بھی جائے تو اس کے اجیرن بننے کا اندیشہ رہتا ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں، بالخصوص یوروپی ملکوں کو سیلاب کی تباہی سے ہر ایک ملک اور ہر ایک خطے کو بچانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS