انتخابی سیاست یا مذہب کی سیاست

0

کہنےکو تو وطن عزیز ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے لیکن سیاست خصوصاً انتخابی سیاست میں مذہب کی آمیزش جس تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سیکولر وسنجیدہ لوگ فکرمند ہیں ، وہ سوچنے لگے ہیں کہ آخر ملک کوکیا ہوگیاہے؟ وہ کہا ں جارہا ہے ؟کیا عوامی ایشوز کم ہوگئے ہیں ؟یا ملک کے مسائل حل ہوگئے کہ ان پر بات نہیں ہورہی ہے ؟ ویسے دیکھا جائے تو مذہب کی سیاست نیا معاملہ نہیں ہے ۔ پہلے بھی ہوتی تھی ۔ 1980کی دہائی سے اس میں تیزی آئی اوراب تو ہر پارٹی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی اورمذہب کی سیاست کرتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ لیڈران مذہب کے نام پر تو نہیںلیکن مذہب کی بنیاد پرضرور ووٹ مانگتے نظر آرہے ہیں ۔حکمراں جماعت ہو یا اپوزیشن اس معاملہ میں سبھی کا طرزعمل یکساں ہے ۔کتنا بدل گیا ہے ہمارا ملک ؟سیاست دانوں کی سوچ اورنظریہ میں کس قدر تبدیلی آگئی ہے ؟ایک وہ دورتھا جب آزادی کے فوراً بعد 1951میں ملک کے پہلے صدرجمہوریہ راجندرپرسادکو مشہور سومناتھ مندرکے ایک پروگرام میں مدعوکیا گیا تھاتواس وقت کے وزیراعظم پنڈٹ جواہرلعل نہرو نہیں چاہتے تھے کہ صدرجمہوریہ کسی مذہبی پروگرام میں شریک ہوں ۔ اس کی وجہ کچھ اورنہیں تھی بلکہ پنڈٹ نہروکا نظریہ تھا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اورصدرجمہوریہ کے اس طرح کے پروگرام میں شریک ہونے سے لوگوں کے درمیان غلط پیغام جائے گا ۔ وہ سوچ اورآج کے سیاسی حالات میں کتنا فرق ہے ؟سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ سیاسی لیڈران خود کو جتنا مذہبی نہیں پیش کرتے ، ان سے زیادہ میڈیا میں ان کولائیو دکھاکریا ان کی باتوں پر بحثیں کراکے پیش کیا جاتا ہے یعنی اس معاملہ میں میڈیا ان سے بھی 4قدم آگے ہے ۔
ملک کی سب سے حساس ریاست اترپردیش میں جیسے جیسے اسمبلی انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں ، مذہب کی سیاست لیڈران اورسیاسی پارٹیوں کے لئے اوڑھنا بچھونا بنتی جارہی ہے ۔ہر ریلی اورجلسہ میں لیڈران نہ صرف خود کو سب سے زیادہ مذہبی ثابت کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔بلکہ ان کے درمیان ایک طرح سے مقابلہ آرائی چل رہی ہے ۔کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔سب کی سرگرمیاں اوربولیاں یکساں نظر آرہی ہیں ۔ غور طلب امریہ ہے کہ سبھی لیڈران ایک ہی مذہبی کمیونٹی کی سیاست کررہے ہیں اورخود کو اس کا حامی ومحافظ ثابت کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑرہے ہیں ۔کوئی بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ان کے طرزعمل اورسیاست سے دوسری کمیونٹیز خصوصا اقلیتوںمیں کیا پیغام جائے گا ؟وہ کیا سوچیں گی؟ اور دنیا میں ہندوستان کی کیا شبیہ بنے گی ؟اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرے کہ مذہب کی سیاست میں ہی ہر پارٹی ہارجیت تلاش کررہی ہے ۔جہاں حکمراں جماعت یہ سوچتی ہے کہ مذہب کی سیاست کے ذریعہ ہی اپنی نیاپار لگاسکے گی۔وہیں اپوزیشن کو لگتاہے کہ حکمراں جماعت کو ہرانے اوراقتدارحاصل کرنے کی کنجی مذہب ہی ہے اورمذہب کی سیاست کا توڑ مذہب کی سیاست ہے ۔اس لئے وقتی طور پر بھلے لیڈران کبھی کبھی دیگر ایشوز پر بول دیتے ہیں لیکن بات گھوم پھر کر مذہب پر ہی پہنچتی ہے اورہر کوئی مذہبی چولاپہنے ہوئے نظر آتا ہے ۔یہ چولا موجودہ دورمیں لوگوں کو سب سے زیادہ فریب میں مبتلا کررہا ہے ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مذہب کی سیاست کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب یہ فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کون سی پارٹی سیکولر ہے اورکون غیر سیکولر۔پوری انتخابی سیاست مذہب کے اردگرد گھوم رہی ہے جیسے انتخابی نہیںمذہب کی سیاست ہورہی ہے ۔
ملک میں موجودہ مذہبی اورانتخابی سیاست سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں اورلیڈران کی ترجیحات کیا ہیں ؟لیکن عوام کے مسائل کو ہم ثانوی حیثیت کیسے دے سکتے ہیں ؟ہمیں سوچناہوگاکہ کیا یہ وہی ملک ہے جہاں بھکمری اور غربت ہے ،مہنگائی اور بے روزگاری ہے ،20فیصدسے زیادہ آبادی غیرخواندہ اور 25فیصدسے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزاررہی ہے ۔ملک کی معاشی حالت کسی سے مخفی نہیں، زیادہ دن نہیں ہوئے جب کورونا اورلاک ڈائون سے پورا ملک بے حال وپریشان تھا، اس سے ہونے والی ہلاکتوں اوریتیم ہوئے بچوں کو کوئی نہیں بھول سکتا ،پھر بھی انتخابی سیاست میں ان ایشوز پر بہت کم باتیں ہوتی ہیں۔ شایدسیاسی پارٹیاں اورلیڈران چاہتے ہیں کہ عوام اپنے مسائل کو بھول جائیں اور جذباتی سیاست میں الجھے رہیں۔ اسی لئے وہ مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرکے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ایسے میں فکرمندی اورتشویش بڑھے گی ۔lrt
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS