یوپی اسمبلی انتخابات میںموروثی سیاست کی آزمائش

0

شاہد زبیری

مغربی یو پی کے جاٹ اور مسلم کسانوں کو اگر کسی نے ان کی سیا سی طاقت کا احساس کرا یا تھا تو وہ تھے پرانے کانگریسی لیڈر آنجہا نی چو دھری چرن سنگھ ،جنہوں نے ہی خطے کے جاٹ اور مسلم کسانوں کو اقتدار کا چسکا لگا یا تھا اور خود بھی ان کے بل پر وزیراعلیٰ سے نائب وزیر اعظم اور پھر وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچے تھے ۔لہلہاتے کھیتوںکی فصل سے انہوں نے ووٹوں کی فصلیں کاٹی تھیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ملک کی معیشت پر ان کی گہری نظر تھی۔ کٹر آریہ سماجی تھے وہ فارمر (کسان) ہی نہیں ریفامر( مصلح ) بھی تھے اسی لئے خطے میں لوگ ان کو بڑے چو دھری صاحب کے نام سے پکارتے تھے اور انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں تھے اور کسانوں کے مسیحا سمجھے جا تے تھے ۔عمر کا ایک بڑا حصّہ کانگریس میں گزارنے کے بعد انہوں نے 1967میں جب یو پی میں کانگریس دو لخت ہوئی تو پہلی مرتبہ یو پی کے وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالی دو سال بعد1969میںیو پی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو ان کی قائم کردہ بھا رتیہ لوکدل پارٹی نے 98سیٹو ں پر اپنے بل بوتے پر قبضہ کیا اور ملک میں اپنی سیاسی دھاک جما ئی اور دوسری مرتبہ پھر سے وزیرِ اعلیٰ کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا ۔ایمرجنسی کے بعد اندرا گاند ھی کیخلاف چلی لہر میں جنتا پارٹی بر سرِ اقتدار آئی تومرار جی ڈیسائی وزیر اعظم اور چو دھری چرن سنگھ نائب وزیر اعظم بنے اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہ ملک کے پانچویں وزیرِ اعظم کے منصب سے سرفراز ہو ئے گرچہ اس کی مدّت کار کم تھی لیکن انہوں نے جو سیاسی سفر شروع کیا تھا اس کی بلندی تک وہ پہنچنے میں کامیاب رہے۔چو دھری چر ن سنگھ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ مغربی یو پی میں جس پر ہاتھ رکھ دیتے تھے وہ امیدوار کا میاب ہو جا تا تھا۔ وہ سیاست کے گرو تھے اور لیڈر بنانے میں شہرت رکھتے تھے۔ملائم سنگھ یادو سمیت یو پی کو انہوں نے کئی لیڈر دیے ہیں،کہنے کو تو انہوں نے مغربی یو پی کے جاٹ اور مسلم کسانوں کے ایشوز پر سیاست کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملک کی سیاست میں کسانوں کو مقام دلانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا۔ آج بھی کسان ان کو یاد کرتے ہیں۔ان کے بعد ان کی سیاسی وراثت ان کے بیٹے چو دھری اجیت سنگھ کے ہاتھوں میں منتقل ہو گئی جوامریکہ سے کمپیوٹر انجینئرنگ کر کے لوٹے تھے لیکن سیاست کی انجینئر نگ کے گُر بھی انہوں نے جلد سیکھ لئے،ان کی سیاست کی بنیاد بھی جاٹ اور مسلم کسان ہی تھے جس کے سہارے وہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑ ھتے ہوئے اقتدارکے ایوانوں تک پہنچے اور کابینہ درجہ کے وزیر رہے، لیکن وہ سیاست میں کسی ایک لگے بندھے اصول اور کسی خاص نظریہ کی بیڑیوں سے آزاد رہے۔ انہوں نے سیاست کو سیاست کی طرح دیکھا اور استعمال کیا۔وہ وی پی سنگھ، نر سمہا رائو اور اٹل بہاری کے دور میں کیبنٹ میںمرکزی وزیر رہے بعد میں 2009میں کانگریس سرکار میں بھی وہ مرکزی وزیر تھے ۔جب چودھری چرن سنگھ کی موت ہوئی تو یو پی اسمبلی میں لوکدل کی 87سیٹیں تھیں۔ ان کی وفات کے بعد لوکدل تقسیم ہوگیااور چودھری چرن سنگھ کے سیاسی شاگرد ملائم سنگھ یادو ا ور چو دھری چرن سنگھ کے سیاسی جانشین چود ھری اجیت سنگھ میں ٹھن گئی ۔چودھری اجیت سنگھ نے لوکدل( اے ) کے نام سے اپنی پارٹی بنائی اور یوپی میں ان کی قیادت میں راشٹریہ لوکدل نے2002 میں سب سے زیادہ 16سیٹوں پر قبضہ کیا۔ 2012میں کانگریس کے سا تھ یو پی اسمبلی کا انتخاب لڑا تو ان کو صرف 9سیٹیں ملیں۔ 2009میںچو دھری اجیت سنگھ نے بی جے پی کے ساتھ پارلیمنٹ کا انتخاب لڑا تھا جس میں ان کو 5سیٹوں پر کامیابی ملی تھی ۔چودھری اجیت سنگھ کو 2014کے پارلیمانی الیکشن میں شدید دھچکا لگا ۔ ٍلٍٍوکدل کا کھا تہ ہی نہی ٍکھلا۔ وہ خود اور ان کے بیٹے جینت چودھری اپنے گڑھ میں اپنی سیٹ بچا نہیں پا ئے۔چھوٹے چودھری کے نام سے مشہور چودھری اجیت سنگھ کی 6 مئی 2021کوکورونا کے سبب موت ہو گئی ۔چودھری اجیت سنگھ جا تے جاتے اتنا تو کر گئے کسان تحریک جب آزمائش سے دو چار تھی تحریک کی حمایت میں آگے آکر کسانوں کے دل جیت لئے اور مغربی یو پی کے جاٹ اور مسلم کسانوں کی نارضگی دور کر گئے ۔
چھوٹے چو دھری کی موت کے بعد لوکدل کی دستار جینت سنگھ کے سر پر رکھی گئی، اس دستار کو جاٹوں کی کھاپ پنچائتوں کے چو دھریوں نے ہی سر پر رکھا ہے جس کا اثر دور دور تک گیا کسان تحریک کی وجہ سے مغربی یو پی کے سارے کسان مذہب اور ذات برادری سے او پر اٹھ کر ایک اسٹیج پر آگئے تھے اور جو خلیج 2013کے مظفر نگر فساد نے جاٹ کسا نوں اور مسلمانوں میں پیدا کردی تھی وہ اب دور ہو گئی ہے اور خطے کے کسان متحد ہو کر لوکدل کے بینر تلے آگئے ہیں۔جینت چو دھری کی آشیرواد ریلیوں میں آنے والی کسانوں کی بھیڑ کی وجہ یہ ہے کہ سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش سنگھ نے جینت چو دھری کاہاتھ تھام لیا۔ میرٹھ کی گزشتہ دنوں 13دسمبر کی مشترکہ ریلی میںجو عوامی سیلاب دکھا ئی دیا تھا اگر وہ ووٹوں میں بدل گیا تو کوئی بعید نہیں کہ مغربی یو پی سے بی جے پی کا صفا یا ہو جا ئے مغربی یو پی کی تین کمشنریوں میرٹھ ،مرادا باد اور سہارنپور کی کل 71اسمبلی سیٹوں میں زیادہ تر سیٹوں پر سماجوادی پارٹی اور لوکدل کا پرچم لہرائے۔یو پی کی مہا بھارت کی جنگ کا اصل میدان مغربی یو پی ہے جہاں بی جے پی کے ساتھ جینت چو دھری کے لوکدل اور سماجوادی پارٹی کے اکھلیش سنگھ یادو کی سیاسی بصیرت کا بھی امتحان ہے۔اصل امتحان جینت چو دھری کا ہے یہ انتخاب ان کے سیاسی مستقبل کو طے کرے گا اس خطہ میں لوکدل کی جیت ہی جینت کی راہ ہموار کرے گی لیکن اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ کتنی سیٹوں پر لوکدل کا اتحاد ہو تا ہے۔
جس کسان تحریک سے اس اتحاد کو زیادہ امید تھی وہ تحریک بھی ختم ہو گئی جس کا سب سے زیادہ اثر کسی پر پڑے گا تو وہ لوکدل پر پڑے گا ۔ابھی تک جو منظر نامہ ابھر رہا ہے اس میں کسان لولدل کے پا لے میں نظر آتے ہیں بعض استثنا کے ساتھ۔ بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ کسان اس کے ہندوتوا کے دام میں پھنس جا ئیں اور ہندو مسلم کا کارڈ چل جا ئے اس کیلئے وہ اس خطہ میں یو نیورسٹیوں سے لیکر ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیاد اور افتتاح کابھی سہارا لے رہی ہے اور خالص سرکاری پرو گراموں کو اپنے انتخابی مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہے، اسی لئے اپوزیشن جماعتیں بی جے پی پر سرکاری مشینری کے استعمال کا بھی الزام لگا رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ سماجوادی پارٹی کے لیڈروں کے گھروں اور کاروباری مقامات پر انکم ٹیس کے چھا پے بھی شروع ہو گئے ہیں جس کے بعد اکھلیش سنگھ کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ( اڈی) اور سی بی آئی بھی اپنا فریضہ انجام دے گی۔ اگر یہ سب کچھ ہوتا ہے اس کا ردِّ عمل کس کے حق میں مفید اور کس کیلئے مضر ہو گا یہ تو وقت بتا ئے گا۔ بی جے پی کے خلاف بھی اس کا ردِّ عمل ہو سکتا ہے اگر سماجوای پارٹی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ مودی اور یو گی سرکار سیاسی انتقام اور سیاسی ڈر پھیلا نے کیلئے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔اس سیاسی تناظر میں سماجوادی پارٹی سے زیادہ لوکدل کے کیلئے آزمائش ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ساتھ لوکدل اس ساری کارروائی سے متاثر ہو گا ،اس لئے کہ لوکدل کا اتحاد سماجوادی پاٹی کے ساتھ ہے۔بی جے پی آخری دم تک مغربی یو پی کے اپنے مضبوط قلعہ کو بچا نے کی جی توڑ کوشش کرے گی اور کررہی ہے۔باپ دادا کی چو دھراہٹ اور وراثت بچا نے کی ذمّہ داری صرف اور صرف جینت چو دھری کے سر پر ہے، وہ کیسے اس کو بچا تے اور اس دستار کی آبرو کیسے سلامت رکھتے ہیں جو کھاپ پنچا ئتوں کے چودھریوں نے ان کے سر پر رکھی ہے ۔lrt
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS