عدالت عظمیٰ کا فیصلہ

0

عدالتوں کو فیصلہ سنانے کا حق ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ان کا فیصلہ سبھی لوگوں کے لیے باعث اطمینان ہو۔ عدالت کسی فرد واحد کے معاملے کو فوراً سن لیتی ہے اور دیگر لوگوں کے معاملے سننے کے لیے وقت نہیں نکال پاتی ہے، ایسے معاملوں کی سنوائی کے لیے بھی فوراً وقت نہیں نکال پاتی ہے جن سے متعدد لوگوں کی وابستگی ہو، تو کیا عدالت کی ترجیحات کی فہرست پر بات کی جانی چاہیے؟ ملک کی اونچی عدالت کے جج پر الزام عائد کیا جاتا ہے تو اس معاملے کی سنوائی وہ خود کرتے ہیں۔ وہ خود کیوں کرتے ہیں سنوائی؟ اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ نہیں، یہ خود اپنے آپ میں ایک سوال ہے مگر یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ سوالوں کو چھوڑ کر انصاف تک نہیں پہنچا جا سکتا، اس لیے انصاف کے نظام میں سوالوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کے نکات کو سوالوں سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاہین باغ پر عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کو بھی اسی طرح سمجھنے کی کوشش اگر کی جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق، سی اے اے، این آر سی کے خلاف شاہین باغ کے مظاہرے پر 7 اکتوبر، 2020 کو عدالت عظمیٰ نے جو فیصلے سنائے تھے اور اس پر نظر ثانی کی جو عرضیاں دائر کی گئی تھیں، عدالت نے انہیں خارج کر دیا۔ اس نے کہا کہ ’مظاہروں کے آئینی حقوق کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ مظاہروں اور اختلاف رائے کے دوران کسی بھی عوامی مقام کو ہمیشہ کے لیے گھیرنے نہیں دیا جا سکتا۔‘ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کہا کہ ’ مظاہروں کا حق ہر جگہ اور کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ کہیں اچانک مظاہرے ہو سکتے ہیںلیکن کسی بھی طرح کے طویل ہو جانے والے مظاہروں کے لیے عوامی مقامات کا لمبا گھیراؤ نہیں ہو سکتا، خاص کر ایسی جگہوں پر جہاں دوسروں کے حقوق پر اثر پڑ رہا ہو۔‘ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ شاہین باغ کا مظاہرہ 14 دسمبر، 2019 کو شروع ہوا تھا اور 24 مارچ، 2020 تک چلا تھا۔ 101 دن چلنے والے اس مظاہرے نے عالمی سطح پر لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی تھی۔
کورونا کی وجہ سے شاہین باغ کا مظاہرہ ختم ہوا تھا۔ اس کے بعد زرعی اصلاحات کے قوانین کے خلاف کسان سڑکوں پر اترے۔ مظاہرہ انہوں نے اگست، 2020 میں شروع کیا، دلی ذرا تاخیر سے پہنچے مگر دلی میں بھی انہیں مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھائی مہینے سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے۔ شاہین باغ مظاہرے کے فیصلے پر دائر نظر ثانی کی عرضیوں پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس ایس کے کول، جسٹس انرودھ بوس اور جسٹس کرشنا مرانی کی بینچ نے یہ بات کہی ہے کہ عوامی راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے یا اس پر سے قبضہ ہٹانے کے لیے انتظامیہ کو کارروائی کرنی چاہیے ۔ تو کیا یہ بات مان لی جانی چاہیے کہ کسان مظاہرین سے عوامی مقامات کو خالی کرانے کے لیے عدالت نے پولیس کو اجازت دے دی ہے؟ ویسے کسانوں کا معاملہ عدالت عظمیٰ کے پاس پہنچا تھا تو اس نے کمیٹی کی تشکیل کا حکم دیا تھا۔ کمیٹی کے لیے جو نام پیش کیے گئے تھے، ان سے عام طور پر کسان مطمئن نہیں تھے۔ ممبروں میں سے ایک نے کمیٹی سے علیحدگی بھی اختیار کرلی اور یہ سوال فطری طورپر اٹھا تھا کہ کسان جب پہلے ہی کمیٹی کے لیے تیار نہیں تھے، پھر عدالت عظمیٰ نے اس کی تشکیل کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ مگر عدالت کا کام فیصلہ سنانا ہے اور فیصلے وہ وہی سناتی ہے جو اسے صحیح لگتا ہے، انصاف وہ وہی کرتی ہے جو اسے صحیح لگتا ہے۔ عام آدمی کی سمجھ میں اگر عدالت کے فیصلے نہیں آتے تو انہیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ، البتہ کبھی کبھی حالات بھی اس طرح کے بن جاتے ہیں کہ عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ خاص ہے یا عام۔
جمہوری نظام میں عام آدمی کی حکومت ہونے، اسی کے توسط سے اور اسی کے لیے حکومت چلانے کی بات کہی جاتی ہے۔ غالباً اسی لیے 12 جنوری، 2018 کو سپریم کورٹ کے ججوں ، جسٹس چلمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کورین جوسیف، کو پریس کانفرنس کرنی پڑی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے بعد دوسرے سب سے سینئر جج جسٹس چلمیشور نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’کبھی کبھی ہوتا ہے کہ ملک کے سپریم کورٹ کا نظام بھی بدلتا ہے۔ سپریم کورٹ کی انتظامیہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہی ہے، اگر ایسا چلتا رہا تو جمہوری حالات ٹھیک نہیں رہیں گے۔ ‘ انہوں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ ’ ہم نے اس ایشو پر چیف جسٹس سے بات کی لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں سنی۔‘ججوں نے اگر پریس کانفرنس نہ کی ہوتی تو لوگوں کو بے چینی نہ ہوتی۔ اس کانفرنس نے جو بے چینی پیدا کی، سوال یہ ہے کہ کیا وہ دور ہو گئی؟ کیونکہ اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ کے ڈیموکریسی کے انڈیکس میں وطن عزیز ہندوستان 2014 میں 27 ویں مقام پر تھا اور اب 53 ویں مقام پر ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS