زرعی قوانین اور ذخیرہ اندوزی کا مسئلہ

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

نئے زراعتی قوانین میں ایک قانون لازمی اشیا سے متعلق ہے۔ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد پارلیمنٹ نے1955میں لازمی اشیا کا قانونEssential Commodities Act-1955 پاس کیا تھا جس کے تحت لازمی اور ضروری اشیا کے متعلق ضروری و بنیادی اصول متعین کیے گئے تھے جس کا بنیادی مقصد لازمی اشیا سے متعلق بازار کی پالیسی کو طے کرنا تھا نیز کالابازاری و جمع خوری پر پابندی نافذ کرنی تھی، لازمی اشیا میں خصوصاً اناج، موسمی فصلیں، پھل و سبزیاں اور تیل و تیل سے بنی اشیا و دوائیں جیسی بنیادی چیزوں کو رکھا گیا تھا جن کی ذخیرہ اندوزی ایک متعینہ مقدار تک ہی کی جاسکتی تھی، گودام صرف سرکار کے ہی ہوسکتے تھے یا سرکاری ادارے ہی سرکار کی اجازت سے گودام میں ذخیرہ اندوزی کرسکتے تھے۔
زراعتی قوانین کیا ہیں اور ان سے عام کسانوں کی روزمرہ کی یا معاشی زندگی پر کیا اثر پڑنے والا ہے، نیز بازار کی پالیسی پر ان کے ممکنہ اثرات کو سمجھنا ہم سب شہریوں کی ذمہ داری ہے، زمانہ قدیم سے یہ روایت یا نظام دیکھا گیا ہے کہ بڑے تاجر ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کی غرض سے بڑے پیمانے پر متعدد اشیا کی گوداموں میں ذخیرہ اندوزی کر لیتے تھے نیز بازار میں کسی بھی چیز کی، خصوصاً روزمرہ کی چیزوں میں سے کسی بنیادی چیز مثلاً چاول، گیہوں، تیل، پیاز، ٹماٹر وغیرہ کو بازار میں مانگ سے کم مقدار میں سپلائی کرتے، جب سپلائی کی کمی ہوتی ہے تو بازار میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں یوں بڑھے ہوئے داموں میں اشیا کو بازار میں لایا جاتا ہے جس کو ہم عام زبان میں جمع خوری یا کالابازاری (Hoarding/Black Marketing) کے نام سے جانتے ہیں۔
کالا بازاری کے خلاف روک تھام اور خریداروں تک سامان بآسانی پہنچانے کے لیے نیز مارکیٹ تک سپلائی پر نظر رکھنے کے لیے حکومتیں قوانین کا سختی سے نفاذ کرتی آئی ہیں تاہم لازمی اشیا کے قانون میں حالیہ تبدیلی کے بعد عوام خصوصاً کسانوں میں بے چینی کا احساس بڑھا ہے، کسانوں کو خدشہ ہے کہ بڑے تاجر گھرانے ان سے کم قیمتوں پرخرید کراناج کی ذخیرہ اندوزی کریں گے اور جب بازار کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا تو یہ تاجر بڑھی ہوئی قیمتوں پر من مانے منافع کے ساتھ اناج و دیگر لازمی اشیا کو سپلائی کریں گے۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ دنوں ہریانہ کے مختلف مقامات پر اڈانی امبانی گروپ کے بڑے بڑے گوداموں کے زیرتعمیر ہونے کے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہے تھے۔
یہی وہ خوف یا خدشہ ہے جس کی وجہ سے کسان احتجاج کررہے ہیں نیز اس احتجاج کو عوام میں بھی مقبولیت حاصل ہورہی ہے، کسانوں کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے گفت و شنید کے ذریعے کسان رہنماؤں کے ساتھ مسئلہ کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں بھی باربار مرکزی وزیر برائے زراعت کی جانب سے کی گئیں تاہم ابھی تک مصالحت کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
لازمی اشیا کے1955کے قانون میں ترمیمات سے قبل کوئی بھی تاجر یا کسان متعینہ مقدار تک ہی اناج یا ان لازمی اشیا میں سے کسی کی ذخیرہ اندوزی کرسکتا تھا، لازمی اشیا کی فہرست میں کن کن اشیا کو شامل کیا جائے گا یہ عموماً مرکزی حکومت طے کرتی ہے جیسے کہ گزشتہ دنوں کورونا بیماری کے دوران ماسک کو بھی لازمی اشیا میں شامل کردیا گیا تھا، جس کے بعد ماسک کو بنانے سے لے کر مارکیٹ میں سپلائی کرنے و فروخت کرنے تک کے تمام ہی معاملات کی نگرانی حکومت لازمی اشیا کے قانون اور اس کے رہنما اصول کے مطابق کررہی تھی۔ کسی بھی لازمی شئے کی متعینہ مقدار سے زیادہ کی ذخیرہ اندوزی کرنے کی صورت میں گرفتار شخص یا کمپنی کو اپنی بے گناہی خود ثابت کرنی ہوتی ہے، یعنی ذخیرہ اندوزی سے متعلق قانون سخت ترین تھا، لیکن دیگر دو زراعتی قوانین کو پاس کرنے کے بعد کی صورت میں مرکزی حکومت کے سامنے ایک بڑا مسئلہ درپیش تھا کہ اگر حکومت پرائیویٹ مارکیٹ کو تجارت کرنے کی اجازت دے کر بڑے تاجر گھرانوں کو زراعتی بازار میں اسپانسر کرنے کی دعوت دے رہی ہے تو ان کو گودام اور کولڈ ہاؤس جیسے بنیادی اسٹرکچر کی ضرورت بھی پڑے گی تاہم اگر لازمی اشیا سے متعلق قانون پہلے کی ہی طرح سخت رہا تو تاجر گھرانوں کے لیے زراعتی بازار میں آنا اور اسپانسر کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں ہوگی، نیز پکڑے جانے پر سخت قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔
لازمی اشیا سے متعلق قانونEssential Commodities Act-1955 میں ترمیم کرنے کے بعد اب عام حالات میں کھانے پینے اور اس سے متعلق اشیا پر سے ذخیرہ اندوزی کی شرائط ہٹادی گئی ہیں، یعنی اب روزمرہ کی خورد و نوش کی اشیا اسٹوریج کی جاسکتی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون میں ترمیم کی ضرورت پیش آنے کی کئی اہم وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں خاص وجہ یہ ہے کہ پہلے ہمارا ملک خوردونوش کی اشیا میں خودکفیل نہیں تھا تاہم اب ہمارا ملک کھانے پینے کی لازمی اشیا کو غیرممالک اور بین الاقوامی بازار میں فروخت کررہاہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آج زراعت کے میدان میں ہمارا ملک بہت ترقی کرچکا ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداوار ضرورت سے زیادہ ہورہی ہے۔ پہلے ہمارا ملک قحط اور وسائل کی کمی جیسے بہت سے مسائل سے روبرو تھا تاہم اب گلوبلائزیشن کے بعد پوری دنیا ایک بازار کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ذخیرہ اندوزی کو پوری طرح سے آزاد نہیں کیا گیا ہے بلکہ مرکزی حکومت کی موجودہ ترمیمات کی روشنی میں اگر ہمارا ملک یا ملک کا کوئی حصہ جنگ، قحط یا کسی قسم کی قدرتی آفات کا شکار ہوتا ہے یا کسی بھی لازمی و ضروری شئے کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے تو اس صورت میں ذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں ہوگی۔ مرکزی حکومت کی منشا صاف صاف یہ ہے کہ عام حالات میں جب کہ بازار کی قیمتیں ذخیرہ اندوزی سے متاثر نہ ہوں نیز ملک میں ان اشیا کہ اتنی بہتات ہو کہ ان کی ذخیرہ اندوزی کرکے غیرملکی بازار میں بھیجا جاسکتا ہو تبھی تک ذخیرہ اندوزی کی اجازت ہوگی۔ نئی ترمیمات کے مطابق اگر کسی سبزی یا پھل کی قیمت میں سو فیصد قیمت کا اضافہ ہوجاتا ہے یا سوکھے اناج میں پچاس فیصد تک کا اضافہ ہوجاتا ہے تو اس صورت میں قیمتوں کے اضافے کو غیرمعمولی اضافہ تسلیم کیا جائے گا اور متعلقہ اشیا کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں ہوگی۔ البتہ ایسے غیرمعمولی حالات میں بھی فوڈ پروسیسنگ اور پہلے سے موجود غیرملکی آرڈر کی بنیاد پر ذخیرہ اندوزی کی اجازت ہوگی۔
کسانوں کی بے چینی کی سب سے اہم وجہ یہ رہی کہ مرکزی حکومت نے حالیہ زراعتی قوانین کو بنانے یا پرانے قوانین میں ترمیم سے پہلے کسان و کسان رہنماؤں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، جب کہ ان سے متعلق قوانین کی تدوین یا ترمیم میں ان کے ساتھ براہ راست مشورہ کیا جانا بہتر تھا تاکہ ان کا اعتماد حاصل ہوسکے۔ قوانین اور اس کی تجویزات پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی تاہم جلد بازی میں ہی آرڈیننس کا سہارا لے لیا گیا۔ ایم ایس پی پر زراعتی قوانین میں خاموشی اختیار کرکے کسانوں کو خصوصاً پنجاب و ہریانہ کے کسانوں کو زیادہ بے چین کردیا گیا، نیز جب کسانوں نے احتجاج کیا تو ان کے احتجاجات کو غلط رنگ دینے و غلط طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم اگر حکومت آج بھی سنجیدگی سے پراعتماد اندازمیں مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے تو یقینا مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS