دیوالی پر معیشت کی امیدیں اور تشویشات

0

مدن سبنویس

دیوالی کو نئے برس کی شروعات بھی مانتے ہیں اور اس سال ایسا لگ رہا ہے کہ معیشت ترقی کی صحیح سمت پر گامزن ہے۔ تیسری لہر کا خدشہ کم ہے اور تیزی سے ٹیکہ کاری نے لوگوں میں کورونا پھیلنے کے خدشات کو بہت کم کیا ہے۔ تو آج ہم معیشت کی حالت کا اندازہ کیسے کریں گے؟
پہلے مثبت پہلو دیکھتے ہیں۔ 9فیصد کے اضافہ کے ساتھ جی ڈی پی میں اضافہ صحیح راستہ پر ہے، جہاں تیسری اور چوتھی سہ ماہی میں اضافہ میں تیزی نظر آرہی ہے۔ ریٹیل مال، تفریح، سیاحت وغیرہ والا سروس سیکٹر اب پوری طرح کھلنے کے مرحلہ میں ہے، جس سے اضافہ میں مزید تیزی آئے گی۔ قابل ذکر ہے کہ ہندوستان سروس سے چلنے والی معیشت ہے اور اس لیے اس سیکٹر کا معمول پر آنا ضروری ہے۔
دوسرا، آربی آئی نے مانیٹری پالیسی پر اپنے رُخ کو قائم رکھنے کی یقین دہانی کی ہے، جس میں لکوڈیٹی کے التزام کے ساتھ اضافہ کے پٹری پر آنے تک موجودہ سود کی شرح قائم رکھنا شامل ہے۔ فنڈ کی ڈیمانڈ میں اضافہ پر اس کا صنعتوں پر مثبت اثر ہوگا۔
تیسرا، ہندوستان کی برآمد اس سال اب تک اچھی ہے، جس میں پہلی ششماہی میں 41فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان نے ترقی یافتہ ممالک میں تیزی سے ریکوری کے بعد ہوئے عالمی کاروبار میں اضافہ کا فائدہ حاصل کیا ہے، جس سے ہندوستان کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نے کافی حد تک درآمد میں اضافہ کا مقابلہ کیا ہے، جو تیل اور غیر تیل دونوں اشیا میں زیادہ ڈیمانڈ کے سبب بڑھ رہی ہے۔ کچے تیل کی قیمتوں میں تیزی کا درآمدبل پر کافی اثر پڑا ہے۔ اس سال تجارتی خسارہ زیادہ ہوسکتا ہے، جو جی ڈی پی کے تقریباً ایک فیصد کے کرنٹ اکاؤنٹس کے خسارہ میں ظاہر ہوگا۔ برآمد میں اضافہ سے یہ تشویش کا موضوع نہیں ہوگا۔
چوتھا، غیرملکی سرمایہ کاری مستحکم ہے۔ یہ ایف ڈی آئی اور ایف پی آئی، دونوں پر نافذ ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ کرنٹ اکاؤنٹ کے بیلنس کی تلافی کرتی ہے، جن کے اس سال خسارہ میں جانے کا خدشہ ہے۔ اس سال اب تک زرمبادلہ کے ذخائر 63بلین ڈالر کے اضافہ کے ساتھ 640بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ ہمارے لیے اچھا ہے کیوں کہ اس سے یقین ہوگا کہ ایکسچینج کی شرح مستحکم رہی۔
پانچواں، وزارت زراعت نے خریف فصل کے معمول کے مطابق رہنے کی پیش گوئی کی ہے، جو تہوار کی ڈیمانڈ کے لیے اچھا اشارہ ہے، جو اگلے کچھ ماہ میں نظر آئے گی۔ دیہی ڈیمانڈ اہم ہے کیوں کہ دیہی معیشت میں جی ڈی پی کی تقریباً 40فیصد حصہ داری ہے، جس میں آدھی زراعت سے آتی ہے۔ اگر یہ اندازہ صحیح ہے تو ہائی ڈیمانڈ کے لیے ضروری حالات بن جائیں گے۔ یہ ڈیمانڈ کے ساتھ ساتھ سپلائی کے لحاظ سے بھی اچھا ہے، جہاں دالیں، تلہن، کپاس، گنا، مکئی جیسی کئی فصلیں متعلقہ صنعتوں کے امکانات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
تو آج کچھ تشویشناک بھی ہے؟ دو اہم تشویشات مہنگائی اور سرمایہ کاری سے متعلق ہیں۔ مہنگائی بڑی تشویش ہے کیوں کہ پورے سال میں کئی روزمرہ کی مصنوعات کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہورہا ہے۔ پٹرول-ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں اس کا بڑا سبب رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف براہ راست کھپت بلکہ مال برداری بھی متاثر ہوئی ہے جو سبھی کموڈٹی کی لاگت میں شامل ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس برس5.5فیصد کی مہنگائی کی شرح کا امکان ہے۔ ابھی آر بی آئی خواہ مہنگائی کی بلند شرح پر کچھ نہ کرے، لیکن گھروں کے بجٹ متاثر ہوں گے۔
دوسرا ہے سرمایہ کاری۔ جب کہ حکومت بڑے پیمانہ پر اپنے سرمایہ کے اخراجات کے ہدف کو پورا کرنے میں کامیاب رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر ابھی بھی پیچھے ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زیادہ تر سیکٹروں میں ابھی بھی اضافی صلاحیت ہے، جس سے نئی سرمایہ کاری کی ضرورت ختم ہورہی ہے۔ انفرااسٹرکچر میں پرائیویٹ سیکٹر کی دلچسپی ابھی بھی محدود ہے، اس لیے سرمایہ کاری میں تیزی آنے میں وقت لگے گا۔
کوئلہ کی کمی جیسے غیرمستقل چیلنجز ہیں جو وقت کے ساتھ سلجھ جائیں گے۔ ساتھ ہی، روزگار پیدا کرنے کی رفتار بھی سست رہے گی کیوں کہ اس میں تیزی معیشت کو رفتار دینے پر ہی آئے گی۔ یہ مسئلہ وبا سے پہلے سے رہا ہے اور اس کا حل ایک سال میں نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر معیشت کو روزگار کے ساتھ ترقی کرنی ہے تو اسے ایڈریس کرنا ہوگا۔ آج یہ کمزور کڑی ہے۔ آخر میں چھوٹے اور درمیانی درجہ کے کاروباری اداروں کی حالت تشویش کا موضوع ہے، جنہیں ایک سال میں نہیں بہتر کیا جاسکتا۔ حکومت اور آر بی آئی نے کئی رعایتیں دی ہیں جو وقت کے ساتھ کام کریں گی اور اس لیے انہیں کچھ اور وقت صبر سے کام لینا ہوگا۔
اس طرح نئے برس کی شروعات میں معیشت فی الحال متوازن یا اچھی حالت میں نظر آرہی ہے۔ حکومت نے اب تک بجٹ کو بہت اچھی طرح سے چلایا ہے، جس میں مالیاتی خسارہ کنٹرول میں ہے اور اب تک صرف 35فیصد ہدف کا استعمال کیا گیا ہے۔ ریاستوں کو معاوضہ سیس (Compensation Cess) کا چیلنج حکومت نے پورا کرلیا ہے۔ ہمیں اب یہاں سے آہستہ آہستہ مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار کیئر ریٹنگس میں
چیف اکنامسٹ ہیں)
[email protected]
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS