ضمنی انتخاب کے قابل غور نتائج

0

ملک میں 3پارلیمانی حلقوں اور 13ریاستوں میں29 اسمبلی حلقوں کیلئے ہوئے ضمنی انتخاب کے نتائج سے بظاہر بھارتیہ جنتا پارٹی کو بڑا دھچکا لگتا ہوا محسوس ہورہاہے لیکن نتائج کا اگر غور سے جائزہ لیاجائے تو اس میں کسی ایک پارٹی کیلئے جشن اور دوسری سیاسی پارٹی کیلئے ماتم منانے جیسا کچھ نہیں ہے۔ ہاں مغربی بنگال کی حد تک یہ کیفیت ضرور ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کو یہاں شدید دھچکا لگا ہے کیوں کہ یہاں کی 4اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں نہ صرف کراری ہار ہوئی ہے بلکہ تین حلقوں میں اس کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی ہے۔
چند ایک استثنیٰ کے ساتھ ضمنی انتخاب میں اب تک کی روایت یہی رہی ہے کہ جس ریاست میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، وہی پارٹی جیت درج کرتی ہے۔ ماسوا ہماچل پردیش زیادہ تر ریاستوں میں یہی ہوا ہے۔ مدھیہ پردیش اور آسام میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے جیت حاصل کی ہے جب کہ بہار میں جنتادل متحدہ نے دونوں سیٹوں پر جیت درج کرائی ہے۔ راجستھان میں کانگریس اور مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے جیت حاصل کی ہے۔
ان نتائج کا جائزہ لیاجائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ طویل عرصہ سے ناموافق حالات اور تنازعات کا مقابلہ کررہی کانگریس کیلئے یہ ضمنی انتخاب حوصلہ افزا ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان نتائج سے ملکی سیاست یا کسی ریاست کی سیاست میں کوئی بڑا فوری اثر پڑنے والا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انقلاب آفریں تبدیلی آنے والی ہے مگر ان نتائج سے بھارتیہ جنتاپارٹی کا یہ وہم ختم ہوگیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہے اور یہ بھی ظاہر ہوگیا ہے کہ عوام نے ابھی کانگریس کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا ہے۔
اترپردیش، پنجاب، گوا، منی پورا ور جھارکھنڈ ریاستوں میںاگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخاب کے تناظر میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔29اسمبلی حلقوں میں ہوئے ضمنی انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے 22سیٹوں پرا پنے امیدوار اتارے تھے لیکن محض 8 سیٹیں ہی حاصل کرپائی۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کی اتحادی جماعتوں نے سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی یعنی متحدہ قومی محاذ(این ڈی اے) 29 میں 15سیٹوں پر ہی جیت حاصل کرپایا۔
راجستھان کی دونوں سیٹوں پر کانگریس نے قبضہ کر لیا۔ مہاراشٹر بھی کانگریس کے کھاتے میں گیا۔ آسام، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور ہریانہ میں بی جے پی کے امیدواروں کیلئے مقابلہ آسان ثابت نہیں ہوا۔آسام میں بی جے پی نے پانچ میں سے تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ وہاںبی جے پی نے چھ ماہ قبل اسمبلی انتخابات جیت کر دوسری بار حکومت بنائی تھی۔ بی جے پی کو ہریانہ میں کسانوں کے احتجاج کا خمیازہ بھگتنا پڑا اورآئی این ایل ڈی کے امیدوار ابھے سنگھ چوٹالہ جیت گئے۔جبکہ کرناٹک کی دو میں سے ایک سیٹ کانگریس نے جیتی اور حکمراں بی جے پی نے ایک سیٹ جیتی۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے 3 میں سے 2 سیٹیں جیتیں، کانگریس کو ایک سیٹ ملی۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کو سب سے بڑا جھٹکا ہماچل پردیش میں لگا ہے کیوں کہ وہاں اس کی حکومت ہے لیکن وہاں کانگریس نے اسے بری طرح شکست دیتے ہوئے کلین سوئپ ہی کر ڈالا۔ہماچل کی منڈی لو ک سبھا سیٹ سے بھارتیہ جنتاپارٹی کے امیدوار بریگیڈیئر خوشحال چند ر ٹھاکر کو کانگریس کی پرتیبھا سنگھ سے ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ہماچل پردیش کے وزیراعلیٰ جے رام ٹھاکر اپنے امیدوارو ں کو کامیاب بنانے میں ناکام ثابت ہوئے اور ان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔
ضمنی انتخاب کے نتائج نے یہ واضح کردیا ہے کہ 2022 میں اترپردیش، پنجاب، گوا، منی پورا ور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوں گے۔ خاص طور پر ہماچل پردیش میں جس طرح سے اس کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے صاف ہے کہ عوام میں ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی بے روزگاری، ہوش رباگرانی،کمر توڑ مہنگائی، کھانے پینے کی بنیادی چیزوں کے آسمان چھوتے دام، پٹرولیم مصنوعات اور رسوئی گیس کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ ایسے سنگین مسائل ہیں جو ضمنی انتخاب میں ایشو رہے۔ زرعی قوانین کے خلاف تقریباًایک سال سے تحریک چلا رہے پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کے کسانوں کا غم و غصہ بھی ضمنی انتخاب پرا ثرا نداز ہو ااو ر آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی یہی ایشوز چھائے رہیں گے اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی راہ مزید مشکل ہوسکتی ہے۔ اگر ملکی صورتحال میں کوئی فوری تبدیلی نہیں ہوئی تو بی جے پی کی یہ مشکل کانگریس کیلئے اقتدار میں واپسی کا نقیب بھی بن سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS