مہنگے ایندھن کی مار

0

سروج کمار

ایک پرانا محاورہ ہے- پڑھے فارسی بیچے تیل۔۔۔۔ لیکن فارسی کو اونچا اور تیل کو نیچا دِکھانے والا یہ محاورہ آج اُلٹ گیا ہے۔ تیل نیا محاورہ گڑھ رہا ہے۔ زمین کا تیل آسمان پر پہنچ چکا ہے اور اس کی اونچائی کا علم ہر کسی کو ہوچکا ہے۔ نہیں ہوا ہوگا تو جلد ہوجائے گا کیوں کہ تیل کی قیمت ہر دن صبر کی نئی حد پار کررہی ہے۔ قدرتی گیس بھی پیچھے نہیں ہے۔ دونوں ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ کل ملاکر سر پر ایندھن کی آفت ہے اور ہمیں اپنے صبر کا امتحان دینا ہے۔
ایندھن کی قیمتیں اونچی ہونے کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی بین الاقوامی اور دوسری گھریلو۔ دونوں وجوہات مسائل کے حل کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک سے کچے تیل کی قیمت کم کرنے اور سپلائی میں اضافہ کے لیے بات کررہی ہے۔لیکن وہ خود قیمتیں کم کرنا نہیں چاہتی۔ بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت پچاسی امریکی ڈالر فی بیرل پار کرگئی ہے جو پورے سال پہلے ساڑھے بیالیس ڈالر فی بیرل تھی۔ یہ 2018کے بعد کچے تیل کی سب سے بلندترین سطح ہے۔ وبا کا زور کم ہونے سے پوری دنیا میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں اور ایندھن کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن تیل پیدا کرنے والے ممالک نے ڈیمانڈ کے مطابق پیداوار میں اضافہ سے انکار کردیا ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک نے پریمیم فیس ہٹانے کی حکومت ہند کی درخواست کو سن کر بھی نظرانداز کردیا ہے۔ ایشیائی ممالک کے لیے کچے تیل پر الگ سے پریمیم فیس کا التزام ہے۔ نتیجتاً ایشیائی ممالک کو سپلائی ہونے والا کچا تیل مہنگا ہوجاتا ہے۔ سعودی عرب ہلکے کچے تیل کی معیاری قیمت پر ابھی ہندوستان سے 1.30ڈالر پریمیم وصول کررہا ہے۔ جب کہ یوروپ کے لیے اس نے 2.4ڈالر کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ایسے میں مستقبل قریب میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی امید بے معنی ہے۔ البتہ ڈیمانڈ میں اضافہ ہورہا ہے تو قیمت اوپر ہی جائے گی۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس گروپ کی حالیہ میٹنگ میں رکن ممالک نے اپنا موقف دہرایا ہے کہ وہ نومبر میں کچے تیل کی کل سپلائی میں صرف چار لاکھ بیرل فی دن تک ہی اضافہ کریں گے۔ باقی تیل پیدا کرنے والے ممالک سعودی عرب، روس، عراق، متحدہ عرب امارات اور کویت کی پیداوار نومبر کے اضافہ کے بعد بھی معمول سے 14فیصد کم رہے گی۔ ظاہر ہے، قیمتیں ہر سال میں اوپر جانی ہیں۔ دراصل، تیل پیدا کرنے والے ممالک وبا کے دوران ہوئے نقصان کی تلافی اونچی قیمت کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھ لینا چاہتے ہیں کہ تیل درآمد کرنے والے ممالک کتنے پانی میں ہیں اور اونچی قیمت کا بوجھ وہ کب تک برداشت کرسکتے ہیں۔
ٹھیک ایسا ہی امتحان حکومت ہند بھی اپنے شہریوں سے لے رہی ہے۔ ہر روز تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور حکومت اس بات سے خوش ہے کہ پٹرول کی کھپت میں اضافہ ہوگیا۔ اسے ٹیکس نہ کم کرنے کا ایک بہانہ مل گیا ہے۔ یعنی جب تک کھپت کم ہونے نہ لگے، حکومت ٹیکس کم کرنے والی نہیں ہے۔ گزشتہ سال وبا کے دوران پٹرول پر 13روپے اور ڈیزل پر 16روپے خصوصی فیس لگائی گئی تھی۔ کم سے کم اس فیس کو ہی حکومت واپس لے لے تو غریبوں پر بوجھ کم ہوسکتا ہے، لیکن فی الحال ایسا لگتا نہیں ہے۔ جواز یہ ہے کہ غریبوں کو مفت راشن اور مفت ٹیکہ کاری کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کے نام پر عوام سے تیل کی کل قیمت کا آدھے سے زیادہ حصہ ٹیکس کی شکل میں وصول کیا جارہا ہے۔
اس سال دوسری لہر کی ہولناکیاں دیکھ چکے لوگ نقل و حرکت میں محفوظ دوری قائم رکھنے کے لیے پرائیویٹ گاڑیوں کا استعمال زیادہ کررہے ہیں۔ اس سے پٹرول کی کھپت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ ماہ ستمبر میں پٹرول کی کھپت پورے سال پہلے کے مقابلہ 9فیصد زیادہ رہی۔ پٹرول کی کھپت میں اضافہ لوگوں کی مجبوری کے سبب ہوا ہے۔ اسی مجبوری کا فائدہ حکومت اٹھارہی ہے اور اسے معیشت میں بہتری کا ثبوت بتارہی ہے۔ لیکن معیشت میں بہتری کا ثبوت پٹرول کی نہیں، ڈیزل کی کھپت سے ملتا ہے۔ ڈیزل کی کھپت گزشتہ سال کے مقابلہ ساڑھے 6فیصد کم ہوئی ہے۔ ملک میں پٹرولیم پیداواروں کی کھپت میں ڈیزل کی حصہ داری تقریباً38فیصد ہے۔ صنعت اور زراعت جیسی معیشت کے اہم سیکٹروں میں ڈیزل کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کی سوچ میں یہ حقیقت شاید شامل نہیں ہے۔
گیس کی آفت بھی تیل سے کم نہیں ہے۔ رسوئی میں استعمال ہونے والی گیس ہو، یا انجن اور ٹربائن چلانے کے کام آنے والی گیس، سبھی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سال یکم جنوری سے لے کر اب تک 14.2کلوگرام کے رسوئی گیس سلنڈر کی قیمت میں 200روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ بین الاقوامی بازار میں قدرتی گیس کی قیمت میں تیزاچھال کے بعد حکومت نے گھریلو قدرتی گیس کی قیمت میں اکتوبر کے شروع میں 62فیصد کا اضافہ کردیا۔ حالاں کہ 2019کے بعد قدرتی گیس کی قیمت میں پہلی بار اضافہ ہوا ہے، لیکن اضافہ کا وقت کہیں سے صحیح نہیں ہے۔ ہر طرف ہاہاکار ہے۔ عام صارفین کی کمر پہلے سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ اس اضافہ کے بعد سی این جی، پی این جی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے بجلی کی پیداوار، کھاد کی پیداوار اور مال ڈھلائی کی لاگت میں اضافہ ہوگا، اور اس کا بوجھ آخر میں عام لوگوں پر ہی پڑے گا۔
ہندوستان اپنی ضرورت کی تقریباً 45.3فیصد قدرتی گیس درآمد کرتا ہے۔ بین الاقوامی بازار میں قدرتی گیس کی قیمت میں تیز اچھال چل رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ممالک میں بجلی بنانے کے لیے کوئلہ کی جگہ پر گیس کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے گیس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب یوروپ میں قدرتی گیس کی پیداوار اِدھر کچھ برسوں میں کافی کم ہوئی ہے، کیوں کہ کئی ممالک نے ماحولیات سے متعلق تشویشات کے سبب گیس سیکٹر بند کردیے ہیں۔ یوروپ کی قدرتی گیس کی پیداوار جو 2005میں 300ارب کیوبک میٹر تھی، وہ 2021میں کم ہوکر 200ارب کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ اب یوروپ گیس کے لیے روس پر منحصر ہے۔
قدرتی گیس کی پیداوار کرنے والے ممالک پر سپلائی کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اس وجہ سے گیس کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اگست کے ایک اعداد و شمار کے مطابق 2008کی کساد بازاری کے بعد سے قدرتی گیس کی قیمت اب تک کی بلندترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ آگے یہ اور اوپر جانے والی ہے۔ بلومبرگ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قدرتی گیس کی قیمت میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، امریکہ کے کئی صارفین کو مجبوراً گیس چھوڑ کر تیل کی طرف لوٹنا پڑا۔ جب کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا قدرتی گیس پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے قدرتی گیس کی راہ آگے مشکل ہونے والی ہے۔ عام صارفین کو پٹرول اور ڈیزل کے ساتھ ایل پی جی، سی این جی اور پی این جی کی اونچی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ لیکن اس سے معیشت کا حساب گڑبڑا سکتا ہے۔ معیشت کے بہت بڑے حصہ کی قوت خرید زمین پر آجائے گی اور معاشرہ میں عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔ بھارتیہ ریزرو بینک(آر بی آئی) کے گورنر شکتی کانت داس بھی پٹرول-ڈیزل کی اونچی قیمت کے ممکنہ خطرے سے حکومت کو آگاہ کرچکے ہیں۔ لیکن حکومت عام صارفین کو راحت دینے کے موڈ میں نہیں ہے، صورت حال تو اپنی جگہ ہے ہی، جنہیں ٹیکس ادا کرنے میں ہر روز مرنا ہے ان کے لیے بھلا کیسی راحت!
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS