پڑوسی ملکوں کا اقتصادی و سیاسی بحران

0

پڑوس کا اثر نہ چاہتے ہوئے بھی پڑتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں حالات زیادہ خراب ہوگئے تھے، لوگ جائے پناہ کی تلاش میں ہندوستان آنے لگے تھے تو نئی دہلی کو وہاں امن بحال کرنے کے لیے فوجی کارروائی کرنی پڑی تھی۔ اس موقع کا فائدہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ملا۔ وہ بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد سے آج تک بار بار ایسا موقع آیا جب بنگلہ دیش نے یہ ثابت کیاکہ پاکستان سے اس کا الگ ہوجانا صحیح تھا، ورنہ وہاں کے حالات اور بدتر ہو جاتے۔ لوگ اسی طرح جمہوری حقوق کے لیے ترستے رہتے جیسے آج پاکستان کے لوگ ترس رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی 51 سال کی تاریخ میں جمہوری طریقے سے منتخب ایک سے زیادہ حکومتوںنے اپنی مدت کار مکمل کی ہے لیکن تقریباً 75 سال کی تاریخ میں یہ اعزاز پاکستان کو حاصل نہیں ہے۔ وہاں حکومتوں کی تشکیل میں فوج اور امریکہ کے رول کی بات کہی جاتی رہی ہے۔ عمران حکومت کی تشکیل میں فوج کا رول کسی سے پوشیدہ نہیں تھا تو اپنی حکومت کے خلاف امریکہ کے کردار کی بات خود عمران خان نے کہی ہے۔ یہ بات کتنی صحیح ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا، البتہ عمران کے ماسکو دورے کے دوران روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو اسی وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ عمران نے دورے کے لیے غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔ کیا انہیں دورۂ روس کی سزا دی گئی؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔ فی الوقت اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ان کے سامنے اندرونی سطح پر بھی چیلنجز ہیں اور بیرونی سطح پر بھی۔ اندرونی سطح پر پاکستان کی اقتصادیات کو پٹری پر لانا، مہنگائی پر کنٹرول، دہشت گردی سے پاکستان کو پاک کرنا، ان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں تو بیرونی سطح پر امریکہ-چین اور ایران-سعودی عرب میں تال میل بیٹھانا، ہندوستان سے رشتہ استوار کرنا ، فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو باہر نکالنا بھی ان کے لیے کم بڑے چیلنجز نہیں۔ چینی حکومت کے ترجمان ’گلوبل ٹائمز‘ نے چین کے لیے عمران خان سے بہتر شہباز شریف کے ثابت ہونے کی بات کہی ہے۔ ادھر میاں نواز شریف کے دور میں ہندوپاک کے تعلقات جیسے تھے، عمران کے دور میں اس سے زیادہ خراب رہے۔ میاں صاحب کے دور میں تو وزیراعظم نریندر مودی ایک بار پاکستان بھی گئے تھے مگر عمران کے دور میں ایسی کوئی گنجائش نہیں نکل پائی، اس لیے یہ امید کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف کے دور میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کچھ بہتر ہوں گے، دونوں ملکوں کے مابین کم از کم تجارتی تعلقات تو ضرور ہی کچھ بہتر ہوں گے مگر کیا یہ امید بر آئے گی، کیونکہ شہباز شریف نے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی یہ بات واضح کر دی کہ ’جب تک کشمیر تنازع کا حل نہیں نکلتا تب تک بھارت اور پاکستان کے مابین امن نہیں آئے گا۔‘ ویسے پاکستان کا کوئی بھی سیاست داں ہو، کشمیر کو اپنی سیاسی بقا کے لیے لازمی مانتا ہے، اس لیے اس پر اس کے موقف میں دیگر لیڈروں کے موقف سے کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے، اس لیے پاکستان سے رشتہ استوار ہونے کی زیادہ امید رکھنا مناسب نہ ہوگا۔ یہ امید رکھنا اس لیے بھی مناسب نہ ہوگا، کیونکہ پاکستان پوری طرح چین کے زیر اثر آچکا ہے، البتہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں فرق ہے۔ بنگلہ دیش کی اب تک کی تاریخ پڑوسی ملکوں، بالخصوص ہندوستان سے رشتہ بہتر سے بہتر بنانے کی رہی ہے۔ چین سے اس کے تعلقات اچھے ہیں تو ہندوستان سے اس کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ وہ یہ نہیں بھولا ہے کہ اس کی تاریخ ہندوستان کے احسان سے شروع ہوتی ہے۔ اب یہ سوچنے کا الگ موضوع ہے کہ ’بنگلہ دیشی شرنارتھی‘، ’بنگلہ دیشی گھس پیٹھئے‘ جیسے الفاظ دونوں ملکوں کے تعلقات پر کیا اثر ڈالیں گے، مستقبل میں ان کے تعلقات کی دِشا اور دَشا کیا ہوگی۔
ادھر سری لنکا کے اقتصادی حالات خراب ہیں اور نیپال کے بھی اسی کی ڈگر پر چلنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سری لنکا میں گوٹابیا راج پکشے حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جگہ جگہ احتجاج کر رہے ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہندوستان اس کی بھرپور مدد کر رہا ہے مگر اس کی ضرورتیں بہت زیادہ ہیں۔ پھر نیپال کے بھی حالات خراب ہورہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک بڑی حد تک چین کے زیر اثر ہیں، سری لنکا تو اس کے ’قرض-جال‘ میں بری طرح پھنسا ہوا ہے، اس لیے یہ دیکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ ان کے حالات کی خرابی میں چین کہیں اپنے مفاد کا حصول تو نہیں دیکھ رہا ہے؟ یقینا حکومت ہند کی حالات پر گہری نظر ہوگی۔ اس کی یہ کوشش ہوگی کہ پڑوسیوں کی مدد کرے مگر وہ اس بات سے بھی ہوشیار ہوگی کہ پڑوسی ملکوں کے منفی حالات کا اثر ملک عزیز پر نہ پڑے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS