گلوبلائزیشن کا زوال اور عالمی ثقافتی جنگ کا بگل!

0

صبیح احمد

تقریباً سبھی کو یاد ہوگا۔ ایک چوتھائی صدی قبل کی بات ہے، جب ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا سمٹ کر ایک کنبہ کی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے۔ سرد جنگ کے دور کی اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان کی مقابلہ آرائی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ جمہوریت بھی تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی۔ اقوام عالم روز بروز اقتصادی طور پر ایک دوسرے پر منحصر ہوتے جا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے نمایاں آفاقی اقدار-آزادی، مساوات، ذاتی وقار، اجتماعیت، انسانی حقوق کے ساتھ عالمی ہم آہنگی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ لوگوں نے ہم آہنگی کے اس عمل کو ’گلوبلائزیشن‘ (عالمگیریت) کا نام دیا۔ یہ شروع شروع میں بظاہر ملکوں کے درمیان بڑھتی تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک اقتصادی اور تکنیکی عمل تھا لیکن پس پردہ ساتھ ہی ساتھ گلوبلائزیشن ایک سیاسی، سماجی اور اخلاقی عمل بھی تھا۔ گلوبلائزیشن دراصل عالمی نظریات، مصنوعات، خیالات اور ثقافت کا انضمام تھا۔ یہ جدیدیت کے نظریہ سے کافی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔ یہ عام نظریہ بن گیا تھا کہ جو بھی ملک اگر ترقی کرے گا،وہ اسی طرح سے ترقی یافتہ کہلائے گا جیسا کہ مغربی ممالک کو کہا جاتا ہے جو پہلے سے ہی ترقی یافتہ اور جدید ہیں۔ عمومی طور پر بات چیت کے دوران اکثر یہ تصور کیا جا تا تھا کہ پوری دنیا کے ممالک مغربی جمہوریتوں کی کامیابیوں کو سراہیں گے اور اس کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کبھی کبھی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ لوگ جیسے ہی ’جدید‘ ہونے لگیں گے، وہ بالکل مغرب کے لوگوں کی طرح مزید بورژوا، صارف اور پرامن ہو جائیں گے۔ کبھی یہ تصور کیا جاتا تھا کہ جیسے ہی ممالک ’جدید‘ ہوںگے، وہ امریکہ اور یوروپ کی طرح اور زیادہ سیکولرہوجائیں گے۔ یہ تاریخ سازی کا رجائیت پسندانہ نظریہ تھا، یہ ایک ترقی اور ہم آہنگی کا نظریہ تھا۔ بدبختی یہ ہے کہ اس نظریہ میں اس دنیا کا ذکر نہیں تھا، جس میں آج ہم رہتے ہیں۔ دنیا اب مزید ہم آہنگی کی جانب مائل نہیں ہے، اب ممالک ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں، دنیا پر انحراف کا غلبہ ہو رہا ہے۔ ہم آہنگی کا عمل سست پڑ گیا ہے اور کچھ معاملوں میں تو یہ بالکل مخالف سمت میں چل پڑا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے سے یہ رجحان کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ حالانکہ آمرانہ جارحیت کے خلاف یوکرین کی بہادرانہ مزاحمت مغرب کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے لیکن بہت سارے ممالک پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑ رہا ہے، بلکہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔
جی ڈی پی کے لحاظ سے 2008 سے 2019 کے درمیان عالمی تجارت میں 5 فیصد کی گراوٹ آئی۔ تجارت میں نئے محصولات اور دیگر پابندیاں عائد ہونے لگیں۔ امیگریشن کے معاملے میں بھی سست روی دیکھنے کو ملنے لگی۔ 2016اور 2019 کے درمیان عالمی سطح پر طویل مدتی سرمایہ کاری میں 50 فیصد تک گراوٹ آگئی۔ اس عدم عالمگیریت(ڈی گلوبلائزیشن) کے اسباب بہت وسیع اور گہرے ہیں۔ بہرحال اب اینٹی گلوبلائزیشن مہم کے تمام انداز کھل کر سامنے آگئے۔ ان میں بریگزٹ، نسل کشی کی حد تک قوم پرستی، ٹرمپ کے طرز کی مقبولیت اور گلوبلائزیشن مخالف بایاں بازو شامل ہیں۔ پوتن کے جنگی جنون کے سبب انہیں سبق سکھانے کے لیے مغرب کے ذریعہ کچھ دوری بنائے جانے کے نتیجے میں سیکڑوں کمپنیاں روس سے باہر نکل رہی ہیں۔ جبراً مزدوری اور نسل کشی کے الزامات کے سبب بہت سارے صارفین چین کے ساتھ کاروبار نہیں کرنا چاہتے۔ مغرب کے بہت سارے سی ای اوز چین میں اپنے کاروبار کرنے پر دوبارہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کیونکہ چینی حکومت کا مغرب کے ساتھ رویہ کافی مخاصمانہ ہو گیا ہے۔ دوسری جانب مغرب بھی چین کے خلاف کافی سخت رویہ اپنا رہا ہے۔ 2014 میں امریکہ نے چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہویئی کو سرکاری ٹھیکے کے لیے بولی لگانے سے محروم کردیا۔ صدر بائیڈن نے ’امریکی ساختہ خریدو‘ ضابطہ کو سخت کر دیا ہے تاکہ امریکی حکومت زیادہ سے زیادہ گھریلو ساز و سامان ہی خریدے۔ چین اور امریکہ کے درمیان غیر ملکی راست سرمایہ کاری 5 سال قبل تقریباً 30 بلین ڈالر کی تھی ۔ اب وہ گھٹ کر 5بلین ڈالر کی ہو گئی ہے۔
بہرحال اب کوئی دو رائے نہیں کہ جیو پولیٹکس یقینی طور پر گلوبلائزیشن کے خلاف آگے بڑھ رہی ہے، ایک ایسی دنیا کی جانب جس پر 2 یا 3 بڑے تجارتی بلاکس کا دبدبہ ہو۔ خصوصاً یوکرین پر حملے نے اس تصورکو مزید تقویت بخشی ہے کہ جہاں تک تجارت اور کاروبار کا معاملہ ہے، گلوبلائزیشن جاری رہے گا لیکن دنیا کے امور کے تعین کے معاملے میں گلوبلائزیشن کا خاتمہ نظر آنے لگا ہے۔ اقتصادی دشمنیاں اب سیاسی، اخلاقی اور دیگر دشمنیوں کے ساتھ گڈ مڈ ہو نے لگی ہیں۔ گلوبلائزیشن کی جگہ کچھ ایسی چیز نے لے لی ہے جو کم و بیش عالمی ثقافتی جنگ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ ماضی کا تجربہ رہا ہے کہ انسانوں کو ایک ساتھ رکھنے کے لیے عموماً اقتصادیات اور ٹیکنالوجی جیسی مادی طاقتوں پر زیادہ زور دیا گیا لیکن صنعتی ممالک کا اپنے وقت میں ایک دوسرے پر اتنا انحصار تھا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے، لیکن اس کے باوجود دنیا کو 2 عالمی جنگیں جھیلنی پڑیں۔ درحقیقت انسانی برتائو کا انحصار اقتصادی اور سیاسی ذاتی مفادات کے بجائے کسی اورعوامل پر ہوتا ہے۔ انسان کی خواہشات اور ضروریات لامحدود ہوتی ہیں۔ ذاتی وقار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مادی مفادات سے زیادہ انہیں توجہ، احترام اور ستائش کی خواہش ہوتی ہے۔ اگر کسی کو یہ تاثر دے دیا جائے کہ وہ توجہ کے لائق نہیں، احترام اور ستائش کے بھی قابل نہیں ہے تو وہ ناراض ہو جائے گا اور یہاں تک کہ بغاوت پر بھی اترآئے گا۔
گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران عالمی سیاست نے سماجی عدم مساوات کی ایک بڑی مشین کے طور پر کام کیا ہے۔ ملک در ملک اعلیٰ تعلیم یافتہ اشرافیہ پر مشتمل گروپس میڈیا، یونیورسٹیوں، ثقافت اور اکثر سیاسی طاقت پر غالب ہوتے چلے گئے۔ بڑی تعداد میں عام لوگ اپنے کو نظر انداز اور ذلیل کیا گیا محسوس کرنے لگے۔ ملک درملک مخصوص انداز میں مقبول رہنما انہی عوامی بیزاری اور ناراضگیوں کا استحصال کرتے ہوئے ذاتی فائدے اٹھانے لگے، مثلاً امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ، فرانس میں میرین لی پین اور دیگر۔ پوتن اور ژی جن پنگ جیسے آمریت پسند رہنما انہی عوامی بیزاریوں کا استحصال عالمی سطح پر کر رہے ہیں۔ وہ متحدہ مغرب کو عالمی اشرافیہ تصور کرتے ہیں اور اس کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان بھی کرنے لگتے ہیں۔ پوتن اکثر وہ ذلت کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں جسے مغرب نے 1990 کی دہائی میں روس کے ساتھ روا رکھا تھا۔ وہ روس کے جلال اور انفرادیت کی واپسی کا وعدہ کرتے ہیں۔ روس عالمی تاریخ میں اپنے درخشاں کردار کی دوبارہ واپسی چاہتا ہے۔ چین کے رہنما بھی ’صدیوں کی ذلت‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ مغرور مغربی شہریوں نے کس طرح اپنی اقدار کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی۔ حالانکہ چین اب دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گئی ہے لیکن اس کے باوجود چینی صدر ژی جن پنگ اب بھی چین کو ترقی پذیر ملک ہی کہتے ہیں۔
لوگوں کو اپنی جائے پیدائش اور ملک سے مضبوط اور غیر مشروط وفاداری ہوتی ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران کچھ لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کا ملک پیچھے رہ گیا یا اسے نظر انداز کر دیا گیا اور ان کے قومی وقار کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے عروج کے زمانے میں کثیر جہتی تنظیمیں اور عالمی ادارے ’نیشن اسٹیٹ‘ پر غالب ہوتے نظر آنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک در ملک قومی فخر کی بحالی اور مقتدراعلیٰ پر زور دینے کے لیے مبالغہ آمیز قوم پرستی کی مہمیں شروع ہو گئیں، جیسا کہ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ، ترکی میں طیب اردگان، ہندوستان میں نریندر مودی اور برطانیہ میں بورس جانسن و دیگر۔ عالمی ہم آہنگی کے فلسفہ کو خیر باد کہتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ ہم لوگ اپنے ملک کو اپنے طریقے سے پھر سے ایک عظیم ملک بنانے جارہے ہیں۔ جبکہ گلوبلائزیشن کے کچھ حامیوں نے تاریخ سازی میں قوم پرستی کے کردار کو بالکل ہی نظر انداز کر رکھا تھا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS