’آئین و جمہوریت کے تحفظ‘ کیلئے جنترمنتر پر ’انڈیا‘ کا مظاہرہ

0
’آئین و جمہوریت کے تحفظ‘ کیلئے جنترمنتر پر ’انڈیا‘ کا مظاہرہ
’آئین و جمہوریت کے تحفظ‘ کیلئے جنترمنتر پر ’انڈیا‘ کا مظاہرہ

نئی دہلی، (ایجنسیاں): پارلیمنٹ سے 146 اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ کی معطلی کے خلاف جمعہ کو اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ (I.N.D.I.A) کے رہنما جنتر منتر پر جمع ہوئے۔ اس مظاہرہ کو ’سیو ڈیموکریسی پروٹسٹ‘ کا نام دیا گیا۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے، راہل گاندھی، شرد پوار سمیت اپوزیشن پارٹیوں کے کئی رہنما موجود تھے۔ پارلیمنٹ میں سیکورٹی لیپس پر راہل گاندھی نے کہا کہ جو لوگ خود کو دیش بھکت (محب وطن) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی ہوا نکل گئی۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ مودی-شاہ نے آئین اور جمہوریت کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
راہل نے کہا کہ ’کچھ دن پہلے پارلیمنٹ ہاؤس میں 2-3 نوجوان کود کر اندر آگئے۔ ہم سب نے انہیں کودتے ہوئے دیکھا۔ وہ اندر آئے، کچھ دھواں پھیلایا، بی جے پی کے سبھی ایم پی بھاگ گئے… جو لوگ اپنے آپ کو دیش بھکت کہتے ہیں، ان کی ہوا نکل گئی تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کی اصل حالت ہے جس کی وجہ سے وہ نوجوان پارلیمنٹ میں کود پڑے۔ میڈیا میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ملک میں بے روزگاری ہے۔ میڈیا نے کہا کہ پارلیمنٹ کے باہر ممبران پارلیمنٹ بیٹھے تھے، وہاں پر راہل گاندھی نے ویڈیو بنا لیا۔ مطلب، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ 150 ارکان پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ سے باہر کر دیا گیا، میڈیا نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایسا کیوں کیا گیا اور کیسے کیا گیا۔ ہم نے امت شاہ سے سوال کیا- بھائی آپ وزیر داخلہ ہیں، یہ 2 نوجوان چھلانگ لگا کر کیسے آگئے، بے روزگاری پر 2 سوال پوچھے تو انہوں نے 150 لوگوں کو اٹھا کر باہر نکال دیا۔ یہ صرف 150 لوگ نہیں ہیں، یہ ہندوستان کے لوگوں کی آواز ہیں۔‘

پارلیمنٹ سید نصیر حسین نے کہا کہ پارلیمنٹ فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ 700 سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ براہ راست یا بالواسطہ منتخب ہوکر آتے ہیں۔ حکومت کو ارکان پارلیمنٹ کو معطل کرنے اور پھر ایوان چلانے کا حق نہیں ہے۔ حکومت مکمل طور پر آمرانہ اور غیر جمہوری ہو چکی ہے۔
دریں اثنا ارکان پارلیمنٹ کی معطلی پر حکومت کی جانب سے ایک بار پھر موقف پیش کیا گیا۔ 2 مرکزی وزرا ارجن رام میگھوال اور پرہلاد جوشی نے پریس کانفرنس کی۔ میگھوال نے کہا کہ اسپیکر پارلیمنٹ کے کسٹوڈین (کیئر ٹیکر) ہوتے ہیں۔ لوک سبھا اسپیکر نے بار بار کہا کہ وہ سیکورٹی کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ وہ اسپیکر پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ وہ (اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ) جان بوجھ کر انتخابی شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں دراندازی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اپنا کام کر رہی ہے۔ پھر نائب صدر کی توہین کی گئی۔

کانگریس کا ماننا ہے کہ حکومت چلانے کا حق صرف انہیں ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جس شخص کو وہ (کانگریس) نامزد کرتے ہیں اسے نائب صدر بننا چاہیے۔ وہ وزیر اعظم نریندر مودی، صدر دروپدی مرمو اور نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ کو نہیں دیکھ سکتے۔ ایک طرح سے یہ دلتوں، کسانوں اور پسماندہ ذاتوں کی توہین ہے۔

ملک کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کا کہنا ہے کہ ذات کی وجہ سے ان کی توہین کی گئی۔ وہ یہ بات کیسے کر سکتے ہیں؟ جب ملک میں عصمت دری ہوتی ہے، دلتوں کو کچلا جاتا ہے، آئین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، ہم نوٹس دیتے ہیں تو کچھ نہیں ہوتا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’کیا میں یہ کہوں کہ دلت ہونے کی وجہ سے مجھے بولنے کا موقع نہیں ملا۔ آپ نے اپوزیشن کے تمام ممبران پارلیمنٹ کو باہر کر دیا اور 3 فوجداری بل منظور کرلئے۔ ان قوانین سے شہریوں کو پریشانی ہونے والی ہے۔‘ کھرگے نے مزید کہا کہ ’آپ ہمیں سی بی آئی، ای ڈی، انکم ٹیکس سے کتنا ڈراتے ہیں۔ آپ دبانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب سب متحد ہو جائیں گے تو اکیلا مودی کچھ نہیں کر سکتا۔ مودی جی کو اتنا غرور ہے کہ ہم 400 سیٹیں جیتیں گے۔ آپ اتنے مقبول تو نہیں ہیں۔ کرناٹک-تلنگانہ-ہماچل میں گلی گلی گھومے، لیکن شکست کھا کر واپس آئے۔‘

رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا کہ مودی اپوزیشن کے بغیر ایوان چاہتے ہیں لیکن ہم لڑتے رہیں گے۔ پارلیمنٹ میں در اندازی کرنے والوں نے رنگین دھواں اڑا تھا، اگر یہ کچھ اور ہوتا تو ملک کے حالت کچھ اور ہوتی۔ احتجاج میں شامل دگ وجے سنگھ نے کہا کہ ہم صرف ایوان میں وزیر داخلہ کے بیان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس پر کئی ارکان پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ سید نصیر حسین نے کہا کہ پارلیمنٹ فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ 700 سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ براہ راست یا بالواسطہ منتخب ہوکر آتے ہیں۔ حکومت کو ارکان پارلیمنٹ کو معطل کرنے اور پھر ایوان چلانے کا حق نہیں ہے۔ حکومت مکمل طور پر آمرانہ اور غیر جمہوری ہو چکی ہے۔

آر جے ڈی کے منوج جھا نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’جو شخص اقتدار میں ہے اسے اب اپوزیشن سے پاک پارلیمنٹ، مزاحمت سے پاک سڑکیں، کھلاڑی سے پاک کھیل اور سوالوں سے پاک میڈیا کی ضرورت ہے۔ یہ لڑائی صرف معطل ارکان پارلیمنٹ کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے‘۔سیتارام یچوری نے کہاکہ ’پورے ملک میں جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے۔ اگر ہم ملک میں جمہوریت اور آئین کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں مودی حکومت کو اقتدار سے ہٹانا ہوگا‘۔ڈی راجہ نے کہاکہ ’ہمارے آئین کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر جی نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، کیونکہ یہ عوام کی خود مختاری کی نمائندگی کرتی ہے۔ پارلیمنٹ بے معنی ہو گئی تو جمہوریت کا قتل! کیا ہم ایسی فاشسٹ آمریت کو ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں‘؟ نیشنل کانفرنس کے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ حسنین مسعودی نے کہاکہ ’ہم ایوان میں بیان دینے کا مطالبہ کر رہے تھے کہ پارلیمنٹ میں سیکورٹی میں کس طرح خرابی ہوئی۔ ایسا دوبارہ ہونے سے روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن جن اراکین پارلیمنٹ نے سوالات کئے انہیں معطل کر دیا گیا‘۔سماج وادی پارٹی کے لوک سبھا ممبر ایس ٹی حسن نے کہاکہ ’یہ ممبران پارلیمنٹ کی معطلی نہیں ہے، بلکہ ملک کی جمہوریت کی معطلی ہے، جمہوریت کے اعلیٰ ترین ادارے پر بلڈوزر چلا کر پیغام دیا گیا ہے کہ آواز نہ اٹھاؤ، سوال مت پوچھو اگر تم نے ایسا کیا تو یہی حشر ہوگا‘۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہاکہ ’مودی حکومت ملک کے آئین کا گلا گھونٹ رہی ہے اور جمہوریت خطرے میں ہے۔ ایسے میں انڈیا اتحاد خاموش نہیں رہے گا، ہم اپنی آخری سانس تک ملک کے عوام کیلئے لڑیں گے‘۔کانگریس کے گورو گوگوئی نے کہاکہ ’مودی حکومت کے تکبر کو توڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ مودی سرکار کو لگتا ہے کہ ممبران پارلیمنٹ کو معطل کرکے ہمیں ڈرایا جاسکتا ہے یا جھکایا جاسکتا ہے، لیکن انڈیا اتحاد نہ ڈرے گی اور نہ ہی جھکے گی، ہم لڑائی کیلئے تیار ہیں، کیونکہ لڑائی ہمارے خون اور تاریخ میں ہے‘۔پارلیمنٹ کی سیکورٹی میں لاپرواہی پر اپوزیشن کے ارکان وزیراعظم مودی اور امت شاہ سے بیان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہنگامہ آرائی کی وجہ سے 14 سے 21 دسمبر تک لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے 146 ممبران پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا۔ اس میں سب سے زیادہ کانگریس کے61 ممبران پارلیمنٹ (لوک سبھا سے44، راجیہ سبھا سے 17) ہیں۔ 18 دسمبر کو مجموعی طور پر 78 ممبران پارلیمنٹ (لوک سبھا-33، راجیہ سبھا-45) کو معطل کیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد پہلی بار ایک ہی دن میں اتنے ارکان پارلیمنٹ کو معطل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے 1989 میں راجیو حکومت میں 63 ممبران پارلیمنٹ کو معطل کیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ بھی 14 ارکان پارلیمنٹ کو معطل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کی سیکورٹی کی ذمہ داری سی آئی ایس ایف کے سپرد

دریں اثنا ارکان پارلیمنٹ کی معطلی پر حکومت کی جانب سے ایک بار پھر موقف پیش کیا گیا۔ 2 مرکزی وزرا ارجن رام میگھوال اور پرہلاد جوشی نے پریس کانفرنس کی۔ میگھوال نے کہا کہ اسپیکر پارلیمنٹ کے کسٹوڈین (کیئر ٹیکر) ہوتے ہیں۔ لوک سبھا اسپیکر نے بار بار کہا کہ وہ سیکورٹی کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ وہ اسپیکر پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ وہ (اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ) جان بوجھ کر انتخابی شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں دراندازی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اپنا کام کر رہی ہے۔ پھر نائب صدر کی توہین کی گئی۔ کانگریس کا ماننا ہے کہ حکومت چلانے کا حق صرف انہیں ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جس شخص کو وہ (کانگریس) نامزد کرتے ہیں اسے نائب صدر بننا چاہیے

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS