دنیا بھر میں جمہوریت خطروں سے دو چار

بیدار مغز عوام ہی اس کا تحفظ کر سکتے ہیں

0

عبیداللّٰہ ناصر

کیا دنیا میں جمہوری نظام خطرات سے دو چارہے اور کیا پھر سیاسی نظام مطلق العنانیت کی طرف راغب ہورہا ہے۔ دراصل روس کے ولادیمیر پوتن، چین کے شی جن پنگ اور ترکی کے رجب طیب اردگان نے جس طرح اپنی نام نہاد مقبولیت کو اپنا اقتدار مستحکم کرنے اور تا عمر ملک پر حکمرانی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اور دنیا کے کئی دیگر سربرہان حکومت کے دل میں یہ خواہش پیدا کر دی ہے اوربہت سے ملکوں میں عوام کے شہری حقوق پر طرح طرح کے قدغن لگائے جا رہے ہیں اور جمہوری آئینی نیز شہری حقوق کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے، اس سے یہ سوال اٹھنا لازمی ہو گیا ہے۔گزشتہ دنوں امریکی صدر جو بائیڈن کی پہل پر ورچوئل سمٹ فار ڈیموکریسی کا دو روزہ اجلاس دنیا میں ابھر رہی اسی صورت حال پر غور کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔اس اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ تسلسل سے یہ پندرہواں سال ہے جب عالمی سطح پر عوام کے شہری حقوق پر پابندیاں بڑھی ہیں۔یہی نہیں بلکہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران جمہوری نظام والے ملکوں میں جمہوریت کو محدود کیا گیا ہے، افسوس کی بات ہے کہ اس فہرست میں ہمارا ملک ہندوستان بھی شامل ہے اور عالمی رینکنگ میں اب ہندوستان مکمل جمہوریہ نہیں بلکہ محدود جمہوریت والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔یاد رہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان نے پارلیمانی جمہوریت کا راستہ اختیار کیا تھا جبکہ اسی دور میں آزاد ہوئے بہت سے ملکوں جن میں چین سمیت ایشیا اور افریقہ کے زیادہ تر ممالک شامل ہیں میں یا تو پارٹی کی ڈکٹیٹرشپ قائم کی گئی تھی یا آمرانہ نظام اپنایا تھا۔ یہی نہیں تقسیم کے بعد اور دوسرے حصہ یعنی پاکستان میں مذہبی حکومت کے قیام کے باوجود اور اندرون ملک ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے ہمارے روشن ضمیر لیڈروں نے ملک کو سیکولر آئینی جمہوریت بنایا اور اس وقت یکساں بالغ رائے دہی کا عوام کو اختیار دیا جب ملک میں خواندگی کی شرح دنیا میں شاید سب سے کم تھی اور ہزاروں سال کے جاگیر دارانہ نظام کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں اپنے جمہوری حقوق سے زیادہ اپنے نام نہاد آقاؤں، راجوں مہاراجوں، زمینداروں کیلئے وفاداری کا جذبہ موجزن تھا۔ہماری جمہوریت اور ہمارا سیکولرزم دنیا کیلئے مثال اور آج دونوں محاذوں پر ہماری عالمی رینکنگ نچلی سطح پر آ چکی ہے، یہ ہمارے لیے افسوس کی بات ہے اور دعوت فکر دیتی ہے ۔
یہی نہیں خود امریکہ کا ریکارڈ بھی اس معاملہ میں کوئی بہت تابناک نہیں ہے حالانکہ اگر ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے تو امریکہ کو سب سے پرانی جمہوریت ہونے کا فخر حاصل ہے لیکن گزشتہ صدارتی الیکشن میں شکست کے بعد بائیڈن کے پیش رو ٹرمپ نے الیکشن کے نتیجہ کو قبول کرنے اور اقتدار کی منتقلی میں جو شرمناک حرکت کی اور ان کے حامیوں نے جس طرح کپیٹل ہل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، وہ امریکہ کی جمہوری تاریخ کا سیاہ باب بن گیا ہے۔وہ تو کہئے کہ امریکی عوام اپنی جمہوریت کو لے کر ابھی حساس ہیں اور امریکہ کے جمہوری ادارے ابھی طاقتور ہیں تو بنا خون خرابہ کے اقتدار کی منتقلی ہو گئی حالانکہ ٹرمپ اور ان کے حامی ابھی بھی ان نتیجوں کے خلاف قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں اور الیکشن کے نتیجوں کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔امریکہ میں تو جمہوریت بچ گئی لیکن مطلق العنان حکمراں بننے کی خواہش رکھنے والے دنیا کے کئی لیڈروں کو ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے ایک خطرناک راستہ تو دکھا ہی دیا ہے اور جن ملکوں میں عدلیہ سمیت جمہوری ادارے اپنی ریڑھ کی ہڈی کھوچکے ہیں، وہاں الیکشن کے نتیجوں کو انبوہ گردی سے پلٹنے کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں جمہوریت لانے کے نام پر امریکہ نے عراق، لیبیا، تیونیشیا، مصر اور افغانستان میں جو کچھ کیا وہ جمہوریت ہی نہیں انسانیت پر بھی کلنک ہے۔
ہندوستان میں جمہوریت پر سب سے پہلا حملہ 1985میں اس وقت کی وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرکے کیا تھا، ایمرجنسی کے نفاذ کی وجوہ پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن یہ بہر حال جمہوریت پر حملہ تھا جس دوران عوام کے سبھی جمہوری، آئینی اور شہری حقوق سلب کر لیے گئے تھے، حزب اختلاف کے قریب قریب سبھی لیڈروں کو ہی نہیں عام کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا، پریس پر سخت سنسر شپ عائد کی گئی تھی اور پارلیمنٹ کی مدت کار پانچ سے بڑھا کر 6سال کردی گئی تھی۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے اور ایمانداری سے اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ اندرا گاندھی نے اپنی اس غلطی کا احساس کرکے یا کسی بھی دوسری وجہ سے پانچ سال کے اندر ہی انٹلیجنس کی اس رپورٹ کے بعد کہ وہ بری طرح الیکشن ہار جائیں گی، عام انتخابات کرائے اور ایمرجنسی کی زیادتیوں کے لیے پورے ملک سے معافی مانگی اور عوام نے انھیں معاف بھی کر دیا اور دو سال کے اندر اندر وہ پھر بر سر اقتدار آ گئیں۔
آج ہندوستان میں حالت با لکل مختلف ہے، یہ کہنا غلط ہوگا کہ 2014میں نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہی ملک میں جمہوریت اور شہری حقوق پرگہن لگا ہے۔ جمہوری ادارے جو کبھی جمہوریت کے مضبوط ستون ہوا کرتے تھے، جن پر ہمارا جمہوری ڈھانچہ کھڑا تھا، جس کی بنیاد پر اکثریت سے منتخب حکومت بھی ایوان میں اپنی نفری طاقت کے بل پر من مانی نہیں کر سکتی تھی، اس ستون میں زنگ لگنے کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا لیکن 2014 کے بعد تو جیسے وہ بھر بھرا کر زمین دوز ہی ہو چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں بہت ہوشیاری سے عوام خاص کر ہندی بیلٹ کے عوام کے ایک بڑے طبقہ کو مذہب اور راشٹرواد کا ایسا معجون مرکب کھلا دیا گیا ہے کہ انھیں ایک خاص نظریہ کے علاوہ نہ ملک کے جمہوری نظام کو لاحق خطروں کا احساس ہے، نہ ہی اپنی معاشی بد حالی کا اور نہ ہی ملک کے بکھرتے ہوئے سماجی شیرازہ کا۔ عوام کی یہ طرز فکر ہی جمہوریت کے لیے اصل خطرہ ہے کیونکہ بہر حال ملک میں ویسی ہی حکومت برسراقتدار آئے گی جیسی عوام چاہیںگے۔ ہندوستان میں نافذ ایمرجنسی کے دوران عوام کو بہت سی سہولیات بھی حاصل ہو گئی تھیں جیسے دفتروں میں وقت پر اور آسانی سے کام ہوجاتا تھا، کسی افسر کی حیثیت نہیں تھی کہ وہ رشوت مانگ سکے نہ تاجروں میں ہمت تھی کہ من مانی قیمت پر اشیا فروخت کریں یا اس کی ذخیرہ اندوزی کریں۔ ٹرینیں وقت سے چلتی تھیں، اسکولوں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں تعلیمی ماحول بہت عمدہ ہو گیا تھا، پھر بھی ہمارے بزرگ اپنے جمہوری حقوق اور اپنے جمہوری نظام کی بقا کی طرف سے حساس تھے اور موقع ملتے ہی اندرا گاندھی کو اقتدار سے نکال باہر کیا تھا۔ آج اگر ہم اپنا محاسبہ کریں اور ایمانداری سے سوچیں تو کیا ہم اپنے جمہوری نظام کی بقا کے لیے اتنے ہی حساس ہیں جتنا ایمرجنسی کے زمانہ کے ہمارے بزرگ تھے تو جواب نفی میں آئے گا۔ہماری جمہوریت کو اصل خطرہ عوام کی سوچ و فکر میں آئی اس تبدیلی سے ہے۔
جمہوریت کے لیے ہندوستانی خاص کر ہندی بیلٹ کے عوام کی بے حسی اور آئینی اداروں کے سربرا ہوں کی بے ضمیری ہندوستانی جمہوریت کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ان اداروں کی سربراہی ایک مخصوص نظریہ کے پیرو کاروں کو دی گئی اور ان اداروں کو حکومت وقت کے بالواسطہ کنٹرول میں لے لیا گیا ہے، میڈیا کو خرید لیا گیا یا ڈرا دیا گیا ہے اور اس کے ذریعہ عوام کی برین واشنگ کی جا رہی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ عوام صحیح غلط، جمہوری غیر جمہوری، آئینی غیر آئینی یہاں تک کہ اخلاقی اور غیر اخلاقی اقدام کا فرق کرنا بھی بھول گئے ہیں، کامیابی کی پرستش کی جا رہی ہے بنا یہ دیکھے کہ اس کامیابی کو کتنے غیراخلاقی طریقہ سے حاصل کیا گیا ہے۔ بھگوان رام کی مریاداؤں کی دہائی دینے والا ملک مریاداؤں کو بالائے طاق رکھ چکا ہے۔اپنے پڑوسیوں میانمار اور پاکستان کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مذہب کے نام پر ایسی ہی برین واشنگ کرکے وہاں کی فوج جمہوریت کا گلا گھونٹتی رہی ہے۔
صدر بائیڈن کی طلب کردہ اس ورچوئل میٹنگ میں روس اور چین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا جبکہ جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرنے والے پاکستان نے اس میں شرکت نہیں کی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی مضبوط موجودگی درج کرائی۔ روس اور چین کا کہنا ہے کہ دنیا میں جمہوریت کا کوئی ایک ماڈل نہیں ہوسکتا، ہمارے یہاں بھی جمہوریت ہے مگر اس کا ماڈل امریکی اور یوروپی ماڈل سے الگ ہے۔ اب اس مضحکہ خیز دلیل کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں جمہوری نظام کو خطرہ مختلف النوع جمہوری ماڈل سے نہیں بلکہ جمہوریت کے اندر پنپ رہے غیر جمہوری طرز فکر سے ہے، اس لیے جمہوریت کو نہ صدر بائیڈن کی طلب کردہ میٹنگوں سے بچایا جاسکتا ہے اور نہ ہی انٹرنیشنل رینکنگ کی رپورٹوں سے، اسے بچانے کی ذمہ داری عوام کی ہے کیونکہ یہ ان کی آزادی اور حقوق سے وابستہ مسئلہ ہے۔ نام نہاد مذہب، ذات برادری اور فرضی راشٹرواد یا قوم پرستی سے بلند ہو کر اپنی جمہوریت اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے عوام کو ہی بیدار رہنا ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS