ابھی کئی اور اذیتوں سے گزرنا ہوگا

0

محمد فاروق اعظمی

کووڈ19-کے نئے ویرینٹ اومیکرون کی یلغار اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) و عالمی بینک (ورلڈ بینک) کے مرتب کردہ تازہ شواہد نے کورونا وبا کے حوالے سے یہ خوش گمانی ختم کردی ہے کہ دنیا جلد ہی پہلے کی طرح ہی پٹری پر لوٹ آئے گی اور اس کی روانی میں ہر خاص و عام کا حصہ ہوگا۔ان دونوں عالمی اداروں کی مرتب کردہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووڈ19- کی وجہ سے صحت کے شعبہ میں دودہائیوں کی عالمی پیش رفت نہ صرف رک گئی ہے بلکہ اس وبائی مرض نے دنیا کے آدھے ارب سے زیادہ لوگوں کو انتہائی غر بت کی جانب دھکیل دیا ہے۔ یہ وبااگر جلد ہی ختم نہیں ہوتی تو صورتحال انتہائی حد تک ابتر ہونے کا سنگین اندیشہ ہے۔صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے دنیا کے غریبوں نے جو ادائیگیاں کی ہیں، اب وہ اس کے تباہ کن اثرات کا سامنا کررہے ہیں۔ 2020 میں شروع ہونے والے اس وبائی مرض کی وجہ سے پہلی بار گزشتہ دس برسوں میں حفاظتی ٹیکوں کی کوریج کم ہوئی ہے اور ٹی بی، ملیریااور اس طرح کے امراض سے ہونے والی غریبوں کی اموات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ان دونوں عالمی اداروں نے دنیا بھر کی حکومتوں کو چند ایک تجاویز بھی پیش کی ہیں لیکن ایسانہیں لگ رہاہے کہ حکومتیں اس پر توجہ دیں گی۔ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے تجویز پیش کی ہے کہ تمام حکومتوں کو فوری طور پریہ یقینی بناناہوگا کہ ان کا ہرشہری مالی نتائج کے خوف کے بغیر صحت کی خدمات تک رسائی حاصل کرسکے۔یعنی حکومتیں صحت اور سماجی امداد پر اخراجات میں اضافہ کریں اور بنیادی صحت کے نظام کو بہتر بنائیں۔ ایسا صحت کا نظام تعمیر کریں جو جھٹکے برداشت کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اگر ایسا نہیں کیاگیا تو غربت میں سنگین حد تک اضافہ، آمدنی میں کمی اورمالی مشکلات مزید شدید ہونے کے امکان ہیں۔
یہ تجاویز ایسی ہیں جن پر مشکل سے ہی کوئی حکومت عمل پیرا ہوسکتی ہے۔کئی ایک جائزے اور سروے اس سے پہلے بھی آچکے ہیں جن میں بتایاگیا ہے کہ دنیا بھر کی مختلف حکومتیں عوامی فلاح کی مد میں اخراجات روز بروز کم کرتی جارہی ہیں اوراس کی وجہ حکومتوں پر سرمایہ داروں کا بڑھتا اثر ہے۔ اس سے قبل کی کئی ایک رپورٹوں میں یہ انکشافات ہوچکے ہیں کہ اس وبا کوآسانی سے روکا جاسکتا تھا لیکن دوائوں اور ویکسین بنانے والی عالمی کمپنیوں نے اپنے منافع کی وجہ سے اس طرح کی کسی بھی کوشش کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اس سلسلے میںچند ماہ قبل عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیاگیاتھا کہ اس وبامیں اضافہ کی وجہ سرمایہ دار، سیاست داں اور دواکمپنیوں کے مالکان ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی زیرنگرانی قائم انڈیپنڈنٹ پینل نے جون کے اوائل میں یہ رپورٹ دی تھی کہ چند ایک سرمایہ دار کمپنیوں کے لالچ نے دنیا بھر کے لوگوں کو وباکی وجہ سے ہونے والی تکالیف میں سنگین حد تک اضافہ کردیا اوران سرمایہ دار کمپنیوں کو اس دوران حکومتوں کا مکمل تعاون حاصل رہا۔اس تحقیقاتی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دنیا وبا کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اور ان تنبیہات کو نظر انداز کیا گیا جو دیوہیکل تباہی کا باعث بنے اورکووڈ-19 کا پھیلاؤ ایک تباہ کن وبا میں تبدیل ہو گیا۔2009 میں H1N1 انفلوئنزا (سوائن فلو) وبا کے بعدسے کم از کم ایک درجن بڑے پینل اور کمیشن اپنی اپنی رپورٹوں میں عالمی وبا سے نمٹنے کی تیاری اور خطرات سے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر اہم اقدامات کی ضرورت کے حوالے سے دس برسوں تک مسلسل تجاویز پیش کرتے رہے مگر اس کے باوجود ان تجاویز کی اکثریت پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ وائرس کا آنا ناگزیر تھا مگر اسے وبابننے سے روکا جا سکتا تھا۔ مگر جان بوجھ کر وہ اقدامات نہیں کیے گئے جن سے اس جان لیوا وائرس کے دنیا بھر میں بے قابو پھیلاؤپر بند باندھا جاسکے اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ عالمی ادارہ صحت کی ان دونوں رپورٹوں سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکمراں اشرافیہ اپنی دولت میں اضافہ کیلئے سفاکیت کی انتہا تک پہنچی ہوئی ہے اور ’ ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں ‘ کا نعرہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہے اور حقیقت اس کے برعکس ہے۔
عرف عام میں جی ایچ آر ایف کمیشن کہے جانے والے گلوبل ہیلتھ رسک فریم ورک نے کورونا یا اس طرح کی کسی بھی وبا سے نمٹنے اور اس کے اثرات کم کرنے کیلئے اخراجات کا جو تخمینہ لگایا تھا وہ کسی بھی حکومت کے دفاعی بجٹ کا اعشاریہ2فیصد سے بھی کم تھا لیکن حکومتوں نے اس پر توجہ ہی نہیں دی اور دنیا بھر کے سرمایہ دار سیاستدانوں اور حکومتوں نے لاکھوں انسانی جانیں بچانے کیلئے اپنے بجٹ کا چھوٹا سا حصہ مختص نہ کرنے کا فیصلہ جان بوجھ کر کیا۔اس پر ستم یہ کہ جب یہ وبا شدت اختیار کرگئی تب بھی انسانی جانوں پر منافعوں کو ترجیح دی گئی۔دواساز اور ویکسین بنانے والی سرمایہ دارکمپنیوں نے بھی حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور تحقیقات میں اس وقت سستی اور لاپروائی برتی جب تک ویکسین خریدنے کیلئے مختلف ممالک میں مقابلہ آرائی نہیں شروع ہوگئی اور ویکسین کی زیادہ سے زیادہ قیمت طے نہیں کر لی گئی۔
و یکسین بنانے کے ایک سال بعد اب کورونا کے اومیکرون ویرینٹ کی یلغار نے بوسٹر ڈوز فراہم کرنے کے نام پر سرمایہ داروں اور حکومتوں کو منافع خوری کا ایک اور موقع فراہم کردیا ہے۔ڈبلیوایچ اواور عالمی بینک کی یہ تجویز کہ حکومتیں عوام کیلئے اپنے خزانہ کا منہ کھولیں اور انہیں صحت خدمات تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کریں، پر عمل مشکل ہی نظرآرہاہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا کہ دنیا جلد ہی کورونا سے پاک ہوجائے گی اور سبھی کی زندگی یکساں رفتار کے ساتھ پٹری پر لوٹے گی صرف خوش گمانی ہی تھی۔یہ خوش گمانی بھی اب ختم ہوچلی ہے۔پہلے جیسی دنیا کیلئے ہمیں ابھی کئی اور اذیتوں سے گزرنا ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS