کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کا افتتاح

0

اترپردیش میں انتخابی سرگرمیاں زوروں پر ہیں، اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان جلد ہونے کا امکان ہے، جگہ جگہ ریلیاں ہو رہی ہیں، خود وزیراعظم نریندر مودی اترپردیش کے دورے کر رہے ہیں، کہیں کسی ترقیاتی پروجیکٹ کی بنیاد رکھ رہے ہیں تو کہیں افتتاح کر رہے ہیں۔ آج وزیراعظم مودی نے کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کا افتتاح کیا۔ حکومت کی طرف سے اس کاریڈور کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ یہ صرف 32 مہینوں میں بنایا گیا۔ اسے بنانے میں 900 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ 300 انجینئروں اور 2600 مزدوروں نے مسلسل تین شفٹوں میں کام کیا۔ رپورٹ کے مطابق، ’5.25 لاکھ مربع فٹ میں بنے کاشی وشوناتھ دھام یعنی کاشی وشوناتھ کاریڈور میں چھوٹی بڑی 23 عمارتیں اور 27 مندر ہیں۔‘ اس کاریڈور کی تعمیر کے لیے حکومت نے 400 مکانات کو قبضے میں لیا۔ رپورٹ کے مطابق، ان مکانات میں کئی مندر ملے۔ ان مکانات کے لوگوں کی بازآبادکاری دوسرے مقامات پر کی گئی ہے۔ پچھلی بار 1669 میں مہارانی اہلیا بائی ہولکر نے کاشی وشوناتھ مندر میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام کرایا تھا۔ اب 352 سال بعد یہ کام ہوا ہے، اس سے بھی کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پی ایم نریندر مودی نے کہا، ’3 ہزار مربع فٹ میں پھیلا مندر اب 5 لاکھ مربع فٹ کا ہو گیا ہے۔‘ 46 منٹ کی تقریر میں پی ایم نے کہا کہ ’بھارت سومناتھ مندر کی تزئین کاری ہی نہیں کرتا، سمندر میں ہزاروں کلومیٹر آپٹیکل فائبر بھی بچھا رہا ہے۔ کیدار ناتھ کی تزئین و آرائش ہی نہیں کر رہا، اپنے دم پر خلا میں بھی لوگوں کو بھیج رہا ہے۔ رام مندر کی تعمیر ہی نہیں کر رہا، ملک کے ہر ضلع میں میڈیکل کالج بھی بنا رہا ہے۔ وشوناتھ کی تعمیر ہی نہیں کر رہا، ہر غریب کے لیے پکے گھر بھی بنوا رہا ہے۔ نئے بھارت میں وراثت بھی ہے اور وکاس بھی ہے۔‘
یہ بات قابل فہم ہے کہ عقیدتمندوں کی سہولتوں کے لیے اقدامات کیے جائیں، تعمیراتی کام سے وارانسی آنے والوں کو آسانیاں ہوں گی، وہ لوگ بھی وارانسی آسکیں گے جو بہتر سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہاں نہیں آتے تھے، وہ لوگ بھی وارانسی دیکھ سکیں گے جو اسے ایک ایسا قدیم جمہوری شہر مانتے ہیں جس نے ایک طرف کبیر داس کو اہمیت دی تو دوسری طرف تلسی داس کو، اسی شہر نے بسم اللہ خان کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ وارانسی اسی بھارت کا ایک شہر ہے جو کئی مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے اور مذہبی رواداری ہی اس کی اصل شناخت ہے۔ یہاں کے حکمراں ذاتی طور پر عبادت گاہوں میں جاتے رہے ہیں مگر حکومت کی سطح پر یا حکمراں کی حیثیت سے ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ بھارت کی سیکولر شبیہ مسخ نہ ہو۔ اس ملک کے لوگوں کا ایک طبقہ یہ بھی مانتا ہے کہ مذہبی فرائض کی ادائیگی میں حکومت سے مالی مدد نہیں لی جانی چاہیے۔ اسی لیے حج سبسڈی ختم کیے جانے پر بیشتر مسلمانوں نے اعتراض نہیں کیا، ان کا ماننا تھا کہ سبسڈی کی رقم ملک کی ترقی میں کام آئے، اس رقم سے میڈیکل کالج کھولے جائیں اور مفاد عامہ کے کام کیے جائیں۔کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کا افتتاح اسمبلی انتخابات سے چند مہینے پہلے کرنے سے بی جے پی کی حریف پارٹیاں یہ کہہ سکتی ہیں کہ دھرم کی سیاست کرنے کے لیے ہی یوگی حکومت نے کاریڈور کا افتتاح کرنے میں جلد بازی کی ہے۔ ویسے کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے، ’کاشی وہ ہے جہاں بیداری ہی زندگی ہے۔ کاشی وہ ہے جہاں موت ہی منگل ہے۔ کاشی وہ ہے جہاں سچ ہی سنسکار ہے، جہاں محبت ہی پرمپرا ہے۔‘تو کیا بی جے پی ان کے اقوال پر غور کرتے ہوئے وارانسی سے ’محبت کی پرمپرا‘ کو آگے بڑھائے گی، انتخابات کے باوجود اس کے لیڈران مذموم بیانات سے بچیں گے؟ فی الوقت اس سوال کا جواب اثبات میں نظر نہیں آتا، کیونکہ یوپی کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ کا کہنا ہے، ’ایودھیا اور کاشی میں عظیم الشان مندر کی تعمیر جاری ہے۔ متھرا کی تیاری ہے۔‘ ایسے میں یہ سوال جواب طلب ہے کہ کیا اس طرح ہمارے ملک میں مذہبی رواداری کی حفاظت کی جا سکے گی اور کیا گنگا جمنی تہذیب والے ملک میں ایسی باتوں کے لیے کوئی گنجائش ہے؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS