کووِڈ 19-نے جدید دنیا کو اوندھے منھ لیٹادیا مگر ناخواندہ بکروال حیرت انگیز طور پر انفکشن نے محفوظ!

    0

    سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):ایک طرف جہاں کووِڈ19-نے ترقی یافتہ ممالک اور قوموں کو اوندھے منھ لیٹا دیا اور انہیں برباد کردیا وہیں جموں کشمیر میں بھیڑ بکریوں کو ہانکتے رہنے والے خانہ بدوشوں نے خود کو کامیابی کے ساتھ اس بیماری سے بچائے رکھا۔
    مقامی طور بکروال کہلائے جانے والے ان خانہ بدوشوں کی اکثریت حالانکہ ناخواندہ ہے تاہم جس کامیابی کے ساتھ انہوں نے خود کو انفکشن سے بچائے رکھا ہے اس پر محکمۂ صحت کے کئی ماہرین بھی حیرت زدہ ہیں۔جیسا کہ شمالی کشمیر کے سرحدی ضلع کپوارہ میں تعینات ڈاکٹر نذیر احمد کا کہنا ہے ’’حیرت ہے کہ بکروالوں نے خود کو بڑی کامیابی کے ساتھ کووِڈ 19-سے خود کو بچائے رکھا ہے،سچ پوچھئے تو ہم نے کسی بھی بکروال کو کووِڈ 19- کا شکار ہوتے نہیں پایا یا پھر اگر کہیں کوئی ہوا بھی ہو تو یہ بس اِکا دُکا معاملہ ہوگا‘‘۔
    سابق ریاست میں بکروالوں کی بڑی قوم ہے جو گرمیوں کے موسم میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو کشمیر کی چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور سردیوں کی آمد آمد پر جموں کے گرم علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اگر لوگوں کی زندگی انتہائی سخت ہے کہ وہ بیشتر وقت ریوڑ کو ہانکتے رہتے ہیں اور چلتے ہی رہتے ہیں۔
    اس سال کووِڈ 19-کی وبا پھوٹنے پر دیگر معمولات کے ساتھ ساتھ بکروالوں کی کشمیر کی چراگاہوں کو روانگی بھی متاثر ہوگئی اور انہوں نے معمول کے برعکس ایک ماہ کی دیر سے سفر شروع کیا وہ بھی تب کہ جب سرکاری انتظامیہ نے انہیں خصوصی اجازت دی۔اب کی بار بکروالوں کی معمولات میں یہ فرق بھی دیکھا گیا کہ بیماری کے ڈر سے انہوں نے ’’غیر روایتی‘‘راستوں کا استعمال کیا اور ہمالیائی سلسلے میں آبادی سے دور چراگاہوں تک پہنچ گئے۔
    بکروال سماج کے ایک لیڈر چودھری اقبال پھانبا کے مطابق اب کی بار بکروالوں کو اضافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انکا کہنا ہے ’’ہماری زندگی تو ویسے بھی بہت مشکل ہے لیکن اب کے کووِڈ 19-کی وجہ سے ہمارے لوگوں کو اور زیادہ سختیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایک تو سرکار نے ماہ بھر تک سفر کی اجازت نہیں دی اور پھر اجازت ملی بھی تو ہمیں مشکل ترین غیر روایتی راستوں سے ہوکر جانا پڑا‘‘۔ پھانبا کو تاہم خوشی ہے کہ انکی قوم بیماری سے محفوظ رہی جسکے لئے وہ قدرت کا شکر بجا لاتے نہیں تھکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اللہ کا شکر ہے کہ جب پوری دنیا ہر طرح کی احتیاط کے باوجود اس بیماری سے پریشان ہے ہمارے لوگ سہولیات کے نہ ہونے کے برابر ہونے کے باوجود بھی محفوظ رہے‘‘۔تاہم انہوں نے کہا کہ بکروالوں نے اپنے طور بڑی احتیاط کی۔
    ایک اور بکروال محمد یٰسین پوسوال نے کہا ’’ہم نے بڑی احتیاط کی۔عام حالات میں ہم لوگ اپنے رشتہ داروں کے ڈھیروں پر جاتے رہتے ہیں اور کسی بھی بیابان میں ہوں تہواروں پر میلے لگاتے ہیں لیکن اب کی بار ہم نے بہت احتیاط کی،نہ رشتہ داروں کے ڈھیروں پر آنا جانا اور نہ تہواروں پر میلے لگانا۔مارے خوف کے ہمارے بچے تک خیموں اور جھونپڑیوں تک محدود رہے اور اسکا فائدہ یہ ہوا کہ اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا‘‘۔
    محکمۂ پشو پالن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالسلام میر کے مطابق انہوں نے بکروالوں کیلئے ممکنہ حد تک احتیاطی تدابیر کی تھیں جن میں انکے سفر کے راستے میں طبی کیمپوں کا قیام، کووِڈ 19-سے بچاؤ کی تدابیر کی جانکاری کے کیمپ اور اس طرح کے اقدامات شامل ہیں۔تاہم انہوں نے کہا ’’چونکہ یہ قوم بڑی سخت جان ہے ہمیں محسوس ہوا کہ انکی ایمیونٹی یا قوتِ مدافعت بھی بڑی مضبوط ہے جس نے ان لوگوں کی مدد کی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ بکروالوں کی قوم عام بستیوں سے دور پہاڑوں پر واقع چراگاہوں میں رہتی ہے یہ بات بھی انکے انفکشن سے دور رہنے کا ایک سبب بنی‘‘۔
    جموں کے میڈیکل کالج میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اب جبکہ بکروالوں کا کشمیر سے جموں لوٹنا شروع ہوگیا ہے اور کئی خاندان جموں پہنچ بھی گئے ہیں ان میں سے بیشتر صحتمند اور توانا ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں پر محکمۂ صحت کی نظر نہیں ہے لیکن جتنے بھی بکروالوں کے ٹیسٹ ہوئے ہیں وہ کووِڈ 19- سے محفوظ ہیں جو ایک اچھی بات تو ہے لیکن حیرانگی کی بات بھی ہے‘‘۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS