شمال مشرقی ہندوستان پر چین کی ناپاک نظر

0

پنکج چترویدی

ہندوستان کی آٹھ شمال مشرقی ریاستوں کی 90 فیصد سرحد تبت، میانمار، بھوٹان اور بنگلہ دیش کو چھوتی ہیں۔ اس طرح یہ بے حد حساس علاقہ ہے۔ حالانکہ 2014 کے مقابلے آج یہاں دہشت گردانہ واقعات میں80 فیصد کی کمی آئی ہے، شہریوں کے قتل کے واقعات 99 فیصد کم ہوئے ہیں، ساتھ ہی سیکورٹی فورسز کی شہادت میں بھی 75 فیصد کی کمی آئی ہے۔ اس کے باوجود یہ بات تشویشناک ہے کہ غیرمستحکم میانمار کے راستے چین علیحدگی پسندوں کو پھر سے ہوا-پانی دے رہا ہے، بنگلہ دیش کے راستے پاکستان تو ادھر پہلے سے ہی گڑبڑیاں کرتا رہا ہے۔ اروناچل پردیش میں چین وقتاً فوقتاً دراندازی اور اس پر بیان بازی کرتا رہا ہے اور اب وہ اس علاقے میں عدم استحکام کے لیے چھوٹے دہشت گرد گروپوں کو شہ دے رہا ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں میں علیحدگی پسند تنظیموں پر دباؤ میں اضافے اور ان کے ساتھ ہوئے معاہدوں نے ماحول کو پرامن بنایا ہے۔ 23 فروری 2021 کو کیے گئے کاربی آنگلان معاہدے، 10-8-19 کے این ایل ایف ٹی تریپورہ معاہدے، 27-1-2020 کے بوڈو معاہدے سے ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں 3922 دہشت گردوں نے خودسپردگی کی۔ حالانکہ ہماری فوج نے میانمار میں گھس کر دہشت گردوں کے اڈے تباہ کیے لیکن گزشتہ دو برسوں میں انتہا پسندوں نے بھی فوج پر کچھ بڑے حملے کیے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میانمار میں فوج کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد چین اور میانمار کے سرحدی علاقوں میں باغی پھر منظم ہو رہے ہیں۔ میانمار کو یہ بات ناگوار گزری ہے کہ اس کے ملک کے کوئی 20 ہزار سیاسی کارکنان اور فوج مخالف ملازمین کو ہندوستان نے ایک سال سے محفوظ پناہ دے رکھی ہے۔ ملک کے شمال مشرق میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آسام رائفلس کے سابق آئی جی میجر جنرل بھبانی ایس داس کے مطابق، شمال مشرق کے کئی علیحدگی پسند لیڈر اپنا ٹھکانہ چین میں بنائے ہوئے ہیں جن میں یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (آئی)، پیپلز لبریشن آرمی آف منی پور اور نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ (کے) سے ٹوٹے دھڑے کے باغی شامل ہیں۔ بی ایس ایف کے ریٹائرڈ اے ڈی جی سنجیو کرشن سود کے مطابق، بے شک چین کے کردار کو نظرانداز نہیں کر سکتے لیکن امن مذاکرات میں اَن سلجھے ایشوز کی وجہ سے بھی ناگا گروپ مشتعل ہیں۔ ماریشس کے سابق این ایس اے، آئی پی ایس شانتنو مکھرجی کے مطابق، الفا (آئی) لیڈر پریش بروا، چین میں غیرقانونی اسلحوں کی منڈی کے طور پر بدنام کنمنگ ریاست میں چھپا ہے۔ پہلے وہ میانمار سرحد کے نزدیک چینی شہر روئل میں روپوش تھا۔
یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ناگا بغاوت کے بعد علیحدگی پسندوں کو 70 کی دہائی میں چین میں ہی ٹریننگ اور ہتھیار ملتے تھے۔ کئی قبائلی باغی شمالی میانمار کے علاقوں کو ماؤ کے ماڈل پر گریٹر ناگالم میں شامل کرنے کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ گھنے جنگلوں کی وجہ سے ہندوستان اور میانمار میں آناجانا مشکل نہیں ہے۔ یاد کرنا ہوگا کہ 1975 میں حکومت ہند اور ناگا نیشنل کونسل کے درمیان شیلانگ معاہدے کی ایس ایس کھاپ لانگ اور تھنگالینگ شیوا جیسے لیڈروں نے محالفت کی تھی جو اس وقت ’چائنا ریٹرن گینگ‘ کہلاتے تھے۔ 1980 میں کھاپ لانگ اور موئیوا نے مل کر نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالم (این ایس سی این) کی تشکیل کی تھی۔ 8 سال بعد 1988 میں اساک موئیوا نے چشی سوو کے ساتھ این ایس سی این (آئی-ایم) گروپ کی تشکیل کی جبکہ کھاپ لانگ نے اپنے گروپ کو این ایس سی این (کے) نام دیا۔ یہ سبھی اپنی فیملی کے ساتھ چین میں شاندار زندگی جی رہے ہیں اور نوجوانوں کو الگ ریاست کا جھانسہ دے کر میانمار میں ان کی ٹریننگ کرواتے رہتے ہیں۔
چین مدد کے لیے میانمار کے یونائیٹڈ اور اسٹیٹ آرمی اور اراکان آرمی جیسے مسلح گروپوں کا سہارا لیتا ہے۔ ویسے یہ تنظیمیں گزشتہ سال دہشت گرد تنظیمیں قرار دی گئی ہیں۔ سیکورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے سب سے مطلوبہ باغی لیڈروں میں سے کم سے کم چار ٹریننگ اور ہتھیاروں کے لیے گزشتہ سال اکتوبر کے وسط میں چینی شہر کنمنگ میں گئے تھے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ہندوستان-میانمار سرحد سے متصل علاقے میں علیحدہ وطن کے لیے لڑنے والے تین قبائلی ناگا باغیوں نے ریٹائرڈ اور موجودہ چینی فوجی افسران کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر بچولیوں سے ملاقات کی تھی۔
آسام میں الفا، این ڈی بی ایف، کے ایل این ایل ایف اور یو پی ایس ڈی کے جنگجوؤں کا بول بالا ہے۔ ناگالینڈ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران علیحدہ ملک کے مطالبے کے نام پر ڈیڑھ ہزار لوگ مارے جاچکے ہیں۔ وہاں این ایس سی این کے دو دھڑے-آئی ایم اور کھپلانگ باقاعدہ حکومت کے ساتھ سیزفائر کا اعلان کر کے عوام سے چوتھ یعنی تاوان وصول کرتے ہیں۔ ان کے آقا غیرممالک میں رہ کر حکومت ہند کے سینئر لیڈروں سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان کے گرگوں کو جدید ترین ممنوعہ ہتھیار لے کر سرعام گھومنے کی چھوٹ ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل تریپورہ میں این ایل ایف ٹی اور اے ٹی ٹی ایف نامی دو تنظیموں کی طوطی بولتی ہے۔ ان دونوں تنظیموں کے ہیڈکوارٹرس، ٹریننگ کیمپ اور خفیہ ٹھکانے بنگلہ دیش میں ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان تنظیموں کو مشتعل کرنے اور مدد دینے کا کام ہوجی اور حرکت الانصار جیسی تنظیمیں کرتی ہیں۔
چھوٹی ریاست منی پور میں مقامی انتظامیہ بڑی حد تک پی ایل اے، یو این ایل ایف اور پی آر ای پی اے کے جیسی تنظیموں کے زیر اثر ہے۔ یہاں سرکاری ملازمین کو اپنی تنخواہوں کا ایک حصہ دہشت گردوں کو دینا ہی ہوتا ہے۔ باہری لوگوں کی یہاں خیر نہیں ہے۔ کے وائی کے ایل یعنی کانگلیئی یاوول کنّ للوپ تنظیم بھی ریاست کے پہاڑی علاقوں میں سرگرم ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران منی پور پانچ ہزار سے زیادہ لوگ علیحدگی پسندی کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ طاقتور تنظیم یونائیٹڈ نیشنلسٹ لبریشن فرنٹ ہے جس کے پاس 1500 لوگ ہیں۔ دوسری سب سے خطرناک تنظیم پیپلز لبریشن آرمی میں تقریباً 400 لڑکے ہیں۔ میگھالیہ میں اے این یو سی اور ایچ این ایل ایل نامی تنظیم علیحدگی پسندی کی علمبردارہیں۔ وہیں میزورم میں این پی سی اور بی این ایل ایف ملک کی مین اسٹریم سے الگ ہیں۔ آسام میں چھوٹی بڑی 36 دہشت گرد تنظیموں کا وجود سرکاری ریکارڈ قبول کرتا ہے۔ منی پور میں 39، میگھالیہ میں 5، میزورم میں 2، ناگالینڈ میں 3، تریپورہ میں 30 اور اروناچل پردیش میں محض ایک علیحدگی پسند تنظیم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو پاکستان سے بنگلہ دیش میں بنے بیس کیمپ سے کھاد پانی ملتا ہے اور اس کا بوجھ چین برداشت کرتا ہے۔
جس طرح سے شمال مشرقی ریاستوں کے انتہا پسند جدید ترین ہتھیاروں اور اس کے لیے ضروری گولہ بارود سے لیس رہتے ہیں، اس سے یہ تو واضح ہے کہ کوئی تو ہے جو جنوب مشرقی ایشیا میں غیرقانونی حساس ہتھیاروں کی سپلائی قائم رکھے ہوئے ہے۔ بندوق کی نوک پر جمہوریت کو غلام بنانے والوں کو ہتھیار کی سپلائی میانمار، تھائی لینڈ، بھوٹان، بنگلہ دیش سے ہو رہی ہے۔ منی پور، جہاں سب سے زیادہ انتہا پسندی ہیں، نشہ کی لت سے بے حال اور اس سے پیدا ہوئے ایڈس کے لیے ملک کی سب سے خطرناک ریاست کہی جاتی ہے۔ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہاں نارکوٹکس کاروبار کے بدلے ہتھیار کی کھیپ پر سخت نظر رکھنا ضروری ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS