بدلتی سیاسی وفاداریاں

0

انتخابات کا موسم سیاست دانوں کیلئے وفاداریاں بدلنے کا بھی موسم ہوتا ہے اور ان دنوں یہ موسم پورے اترپردیش پر چھایا ہوا ہے۔ ریاست کے کئی بڑے لیڈران، وزرا اور ارکان قانون سازیہ نے اپنی اپنی سیاسی مساوات اور جیت کے امکانات کو مستحکم بنانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ کئی ایک نے اپنی پرانی جماعت سے حلف وفاتوڑدیا ہے تو کئی ایک نے باقاعدہ دوسری سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
اس سیاسی رست و خیز میں نقصان زیادہ تر ریاست کی حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کانظرآرہاہے اور وہ اس نقصان کے ازالہ کیلئے دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کو اپنا شکار بنارہی ہے۔ منگل کو ریاست میں بی جے پی کے قدآور لیڈر اور یوگی کابینہ میں وزیر سوامی پرساد موریہ کے استعفیٰ کے24گھنٹے کے اندر ہی یوگی حکومت کے دوسرے وزیر دارا سنگھ چوہان نے بھی کئی دوسرے ارکان اسمبلی کے ساتھ پارٹی کو اپنا استعفیٰ سونپ دیا ہے۔ بھدوہی ضلع کے بی جے پی ایم ایل اے رویندر ناتھ ترپاٹھی کااستعفیٰ بھی سوشل میڈیا پر کل رات سے ہی وائرل ہورہاہے۔ حالانکہ ان لیڈروں کے استعفیٰ پر شکوک و شبہات کے بادل چھائے ہوئے ہیں تاہم یہ یقینی ہے کہ اسمبلی انتخاب سے پہلے اترپردیش کی بھارتیہ جنتاپارٹی میں ’برین ڈرین‘ شروع ہوگیاہے۔
لیکن بی جے پی اس صورتحال کو آسانی سے برداشت کرلینے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ سوامی پرسادموریہ کے یوگی کابینہ سے استعفیٰ دینے اور بھارتیہ جنتاپارٹی چھوڑنے کا اعلان کرنے کے اگلے ہی روز آج بدھ کو بی جے پی نے سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے موجودہ ارکان قانون سازیہ کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے جوابی کارروائی کرڈالی۔بی جے پی کے قومی ہیڈکوارٹر میں سماج وادی پارٹی کے موجودہ ایم ایل اے اور ملائم سنگھ یادو کے بھائی ہری اوم یادو اور موجودہ کانگریس ایم ایل اے نریش سینی نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ ان دونوں لیڈروں کے ساتھ ایک اور ایس پی لیڈر سابق ایم ایل اے ڈاکٹر دھرم پال سنگھ بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔بی جے پی نے اتنے پر ہی بس نہیں کیا ہے بلکہ اپنے وفادار سوامی پرساد موریہ کو ’ غداری‘ کی سزا دینے کا بھی ڈول ڈال دیا ہے۔ سات سال پہلے جب موریہ بہوجن سماج پارٹی میں تھے تو ان پر فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کا الزام لگا تھااور یوگی کابینہ سے استعفیٰ کے اگلے ہی دن ان کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کردیاگیا۔ سابق وزیر محنت سوامی پرساد موریہ کے خلاف سات سال پرانے ایک مقدمہ میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کرتے ہوئے ایم پی – ایم ایل اے کورٹ نے انہیں24جنوری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
یہ صورتحال بتارہی ہے کہ اترپردیش انتخاب بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے آسان ثابت ہونے والا نہیں ہے۔ اسمبلی انتخاب ہونے میں ایک مہینہ سے بھی کم وقت باقی ہے اور وزیرکے عہدہ پر بیٹھے ہوئے دو دو لیڈران کا استعفیٰ حکومت اور پارٹی دونوں کی شبیہ کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔حالانکہ موریہ کے استعفیٰ کے سلسلے میں یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سمیت کئی دوسرے ساتھیوں کیلئے اسمبلی انتخاب میں ٹکٹ کا مطالبہ کیاتھا جسے پارٹی نے مسترد کردیا، اسی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ بات درست ہو لیکن گورنر کو اپنا استعفیٰ بھیجتے ہوئے سوامی پرساد موریہ نے جو وجہ بیان کی ہے اس سے لگتا ہے کہ عوام تو دور حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی پارٹی قیادت اور وزیراعلیٰ یوگی کے کام کاج کے طریقے سے ناخوش ہیں۔ موریہ کاکہنا ہے کہ وہ اترپردیش کی یوگی کابینہ سے ’’دلتوں، پسماندوں، کسانوں، بے روزگار نوجوانوں اور چھوٹے چھوٹے اور درمیانے درجہ کے تاجروں کو نظرانداز کیے جانے والے رویہ کی وجہ سے‘‘ استعفیٰ دے رہے ہیں۔ان لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے کی وجہ جو بھی رہی ہو لیکن اس سے بی جے پی کو شدید نقصان کاسامنا کرنا پڑے گا۔سوامی پرساد موریہ چونکہ پسماندہ ذاتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے ان کے استعفیٰ کی وجہ سے عوا م میں یہ تاثر بھی جارہاہے کہ ریاست کی پسماندہ برادریاں بی جے پی سے ناراض ہیں۔ موریہ نے حالانکہ اب تک کسی دوسری پارٹی میںشمولیت کا اعلان نہیں کیا ہے۔لیکن ان کے استعفیٰ کا راست فائدہ حزب اختلاف سماج وادی پارٹی کو ملتا نظرآرہاہے۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے انہیںا ورا ن کے ساتھیوں کیلئے پارٹی میں استقبال کا عوامی اعلان کر کے بی جے پی کو جھٹکا بھی دے دیا ہے۔
سیاسی لیڈروں کی اس دل بدلی سے ہوسکتا ہے کسی پارٹی کو نقصان اور کسی کو فائدہ ہو لیکن اتنا بہرحال طے ہے کہ ا ن لیڈروںکی وفاداری فقط ان کے اپنے مفاد سے ہے اور وہ جیت ہار کے امکانات کو مدنظر رکھ کر ہی کسی پارٹی کا دامن تھامتے اور کسی کا جھٹکتے ہیں۔ اس کا نہ تو کوئی اخلاقی جواز ہوسکتا ہے اور نہ کوئی مسلمہ سیاسی اصول ان کی اس حرکت کوجائز ٹھہراسکتا ہے۔ سیاست کا یہ سفلہ پن صرف اور صرف ووٹروں کے شعور اور بیدارمغزی سے ہی ختم ہونا ممکن ہے، اس لیے لوگوں کو اس پر غور ضرور کرناچاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS