ذاتوں کی سیاست

0

پچھلے کچھ مہینوں سے ریاستوں میں وزیراعلیٰ بدلنے کا دور چل رہا ہے۔ گجرات میں وجے روپانی کی جگہ وزیراعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل کو بنایا گیا تو اب پنجاب میں کیپٹن امریندر سنگھ کی جگہ چرنجیت سنگھ چنی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ ایسی رپورٹیں آئی ہیں کہ دونوں کا انتخاب ان کی ذات کے مدنظر کیا گیا ہے۔ چرنجیت سنگھ چنی کو وزیراعلیٰ بنائے جانے کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ پنجاب میں 31.9 فیصد دلت ووٹ ہے۔ اس کے علاوہ او بی سی ووٹ 31.3 فیصد ہے۔ پنجاب میں جاٹ سکھ وزیراعلیٰ بنائے جاتے رہے ہیں جبکہ ان کا 19 فیصد ہی ووٹ ہے تو ایسی صورت میں چرنجیت سنگھ چنی کو چن کر کانگریس نے زبردست حکمت عملی کا ثبوت دیا ہے۔ اس انتخاب سے اس کے لیے ایک ساتھ کئی محاذ کی چنوتیاں آسان ہوگئی ہیں۔ شرومنی اکالی دل اور آپ سے ملنے والی چنوتی سے نمٹنے میں بھی اس قدم سے آسانی ہوگی مگر اس فیصلے نے ایک بار پھر ذات کی سیاست کی اہمیت بتا دی ہے۔
ترقی کے نام پر یا مفلسی و بے روزگاری دور کرنے کے نام ووٹ مانگنے والے لیڈروں کی کمی نہیں ہے مگر اس سچائی سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ لیڈروں کے انتخاب کے وقت ذاتوں کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ ہندوستان کی سیاست میں ذاتوں کی اہمیت شروع سے رہی ہے، البتہ گزرتے وقت کے ساتھ الگ الگ ذاتوں کے لیڈروں کے ابھرنے پر ذاتوں کی سیاست اور بڑھ گئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ سیٹوں کی تقسیم کرتے وقت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حلقۂ انتخاب میں کس ذات کے کتنے لوگ ہیں، جو امیدوار کھڑا کیا گیا ہے، وہ کس ذات کا ہے، جن پارٹیوں سے اتحاد ہے، ان کی وجہ سے کن ذاتوں کے ووٹ مل سکتے ہیں۔ شروع میں ذاتوں کی سیاست زیادہ نظر نہیں آتی تھی۔ اس وقت ایک خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کی آبادی خاصی ہے، ان کا ووٹ جنہیں ملے گا، حکومت انہیں کی بنے گی۔ پھر مذہب پر سیاست شروع ہوئی۔ یہ بات کھل کر کہی گئی کہ مسلم ووٹوں کو بے اثر کرنے کے لیے ان کے ووٹ تقسیم کیے جائیں گے اور دوسری جانب دھرم کے نام پر ووٹ متحد کیے جائیں گے۔ ایسا کرنے سے ان علاقائی پارٹیوں کے لیے یہ خطرہ پیدا ہو گیا جو ذاتوں کی سیاست کرنے کے لیے مشہور تھیں۔ بہار میں کبھی لالو پرساد یادو نے ’مائی‘ یعنی مسلمان اور یادو کے اتحاد کا فارمولا دیا تھا تو یوپی میں ملائم سنگھ یادو نے بھی مسلمانوں اور یادوں کے ووٹوں پر توجہ دی تھی۔ ان دونوں لیڈروں کے ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بہار میں مسلمان 16.86 فیصد اور یادو 12 فیصد ہیں، باقی بچے لوگوں میں 24 فیصد اعلیٰ ذات کے لوگ ہیں، چنانچہ یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ بہار کبھی ذاتوں کی سیاست سے نکل پائے گا۔ اسی طرح اترپردیش میں مسلمان 19.26 فیصد اور یادو 9 فیصد ہیں، باقی بچے لوگوں میں 23 فیصد اعلیٰ ذات کے لوگ ہیں، اس لیے اترپردیش میں بھی ذاتوں کی سیاست پھولتی پھلتی رہی ہے، البتہ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو خاصی سیٹیں ملیں تو اس سے ایسا لگا تھا کہ ہندوستان میں ذاتوں کی سیاست کی وہ اہمیت نہیں رہے گی جو اب تک رہی ہے مگر گجرات میں بھوپیندر بھائی پٹیل کو بی جے پی نے اورپنجاب میں چرنجیت سنگھ چنی کو کانگریس نے وزیراعلیٰ بناکریہ اشارہ دے دیا ہے کہ سیاست کی حقیقت سے وہ ناواقف نہیں ہیں۔ پنجاب میں سکھ جندر سنگھ رندھاوا اور اوپی سونی کو نائب وزیراعلیٰ بناکر بھی کانگریس نے ووٹوں کی سیاست پر توجہ دی ہے، کیونکہ سکھ جندرسنگھ رندھاوا جاٹ سکھ ہیں اور او پی سونی ہندو چہرہ ہیں۔
چہروں کے بدلے جانے یعنی گجرات میں وجے روپانی کی جگہ بھوپیندر بھائی پٹیل کو اور پنجاب میں کیپٹن امریندر سنگھ کی جگہ چرنجیت سنگھ چنی کو وزیراعلیٰ بنانے سے اِنٹی اِن کمبینسی کا اندیشہ کسی حد تک کم ہو جائے گا اور ووٹوں کے فیصد میں اضافے کا امکان بڑھے گا وہ الگ۔لیکن یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ مذہب اور ذات کی سیاست اگر ہوتی رہی تو کیا باصلاحیت اور دوراندیش لیڈران پیچھے نہیں چھوٹ جائیں گے اور ان کے پیچھے چھوٹ جانے سے کیا ریاستوں کے لیے ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنا مزید دشوار نہ ہو جائے گا؟ پھر ایسی صورت میں وطن عزیز ہندوستان کی ترقی کے بارے میں کیا حتمی بات کہی جا سکتی ہے، کیونکہ ریاستوں کی ترقی بالواسطہ طور پر ملک کی ہی ترقی ہے مگر سیاست میں جب جیت کی اہمیت ایک حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے، جب لوگوں کو بہلانے میں پارٹیاں عافیت سمجھنے لگتی ہیں تو پھر ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں زیادہ سوچیں گی۔ ویسے بھی جب مختلف ناموں پر باصلاحیت لوگ کنارے کر دیے جائیں گے اور لوگوں کو بھی یہ سیاست پسند آئے گی تو پھر پارٹیوں کو ان کے بارے میں خواہ مخواہ زیادہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS