اختراعی صنعتوں کے چیلنجز

0

سشیل کمار سنگھ

کچھ نیا کرنے کے آئیڈیا کے ساتھ چھوٹے پیمانہ سے شروع کی جانے والی صنعتوں(اسٹارٹ اپ) کا قومی ترقی میں بڑا رول ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوستان میں ان اختراعی صنعتوں کی مہم ایک قومی شراکت داری اور بیداری کی علامت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ غورطلب ہے کہ کاروبار کو فروغ دینے کے مقصد سے پانچ سال پہلے (16جنوری 2016) ’اسٹارٹ اپ انڈیا‘ اسکیم شروع کی گئی تھی۔ حالاں کہ 1991میں اکنامک لبرلائزیشن شروع ہونے کے بعد سے ہی ملک میں معاشی تبدیلی کی بڑی فخریہ کہانی دیکھی جاسکتی ہے۔ چھوٹی صنعتوں کو بڑھاوا دینے کے مقصد سے ایسی اسکیمیں پہلے سے ہی ہندوستان کی معاشی پالیسی کا حصہ رہی ہیں اور یہی دورگڈگورننس کی توسیع پسندانہ سوچ کو بھی زمین اور آسمان دینے کی بڑی کوشش تھی۔گڈگورننس ایک مقبول نظریہ ہے جہاں معاشرتی و معاشی انصاف پر توجہ دی جاتی ہے۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی میںگڈگورننس کا نیاتصور(New Concept) 1992سے ہی ہندوستان میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جب کہ انگلینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے سب سے پہلے ماڈرن گڈگورننس کی راہ دکھائی۔ گڈگورننس اور اختراعی صنعتوں کا گہرا رشتہ ہے۔ اس میں نئے ہندوستان کا تصور بھی موجود ہے۔ اتنا ہی نہیں، یہ آتم نربھربھارت(خودکفیل ہندوستان) کا راستہ بھی آسان کرسکتا ہے۔ ہورون انڈیا فیوچر یونی کارن کی تازہ رپورٹ کے مطابق ہندوستانی اختراعی کمپنیوں نے جون سہ ماہی میں ساڑھے 6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا انتظام کیا، جس میں اختراعی یونٹوں میں سرمایہ کاری کے 160سودے ہوئے جو جنوری-مارچ کی مدت کے مقابلہ میں 2فیصد زیادہ ہے۔ مگر سہ ماہی در سہ ماہی بنیادپر یہ 71فیصد کا اضافہ ہے۔ غور طلب ہے کہ کئی اختراعی یونٹیں یونی کارن کلب میں شامل کرلی گئی ہیں۔ یونی کارن کا مطلب ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی قیمت سے ہے۔ رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 2021کی دوسری سہ ماہی میں ایسی اختراعی صنعتوں کا اضافہ کہیں زیادہ شاندار رہا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اختراعی صنعتوں کے معاملہ میں ہندوستان دنیا میں چوتھے مقام پر ہے جو امریکہ، چین اور برطانیہ کے بعد آتا ہے۔ نئی نوکریوں کی امیدوں سے بھرپور ایسی صنعتیں ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بہتر انٹرپرائزز ہیں۔
گزشتہ کچھ وقت میں حکومت معاشی حالات میں اصلاح کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔ برآمد اور غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کی بھی باتیں کہی جارہی ہیں۔ کہا تو یہاں تک جارہا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ایک سہ ماہی میں اب تک کی سب سے زیادہ برآمدات ہوئی ہے۔ غورطلب ہے کہ مالی سال 2021-22کی پہلی سہ ماہی میں 95ارب ڈالر کی برآمدات ہوئی ہے جو 2019-20کی پہلی سہ ماہی سے 18فیصد اور مالی برس 2020-21 کے مقابلہ میں 45فیصد سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے برآمد میں اضافہ یہ اشارہ دے رہا ہے کہ حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ جو حالات پہلے بگڑچکے ہیں، ابھی بھی وہ پٹری پر پوری طرح لوٹے نہیں ہیں۔ اختراعی صنعتوں کی حالت دیکھ کر بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے۔ فی الحال اختراعی صنعتوں پر وبا کی دوسری لہر کا بھی قہر برپا اور حالیہ صورت حال بتاتی ہے کہ ملک کی اختراعی صنعتوں نے اپنی زبردست صلاحیت کو کافی حد تک متعارف بھی کرایا ہے۔
وبا کی پہلی لہر کے دوران جولائی 2020میں فکی اور انڈین اینجیل نیٹ ورک نے مل کر 250اختراعی صنعتوں کا ایک سروے کیا تھا۔ جو رپورٹ آئی، وہ مایوسی پیدا کرنے والی تھی۔ معلوم ہوا کہ ملک میں 12فیصد اختراعی صنعتیں بند ہوچکی تھیں اور مکمل لاک ڈاؤن کے سبب 70فیصد کاروبار ٹھپ پڑگیا تھا۔ صرف22فیصد کے پاس ہی اپنی کمپنیوں کے لیے 3سے 6ماہ قائم رہنے لائق پیسہ بچا تھا۔ ان میں بھی 30فیصد کمپنیوں کا کہنا تھا کہ مکمل لاک ڈاؤن طویل چلا تو ملازمین کی چھٹنی کے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی سروے سے یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ اختراعی صنعتوں میں 43فیصد تو مکمل لاک ڈاؤن کے 3ماہ کے اندر اپنے ملازمین کی 20سے 40فیصد تنخواہوں میں کٹوتی کرچکی تھیں۔ سرمایہ کاری کی جو موجودہ حالت 2021کی رپورٹ میں نظر آتی ہے، جولائی 2020میں یہ ٹھیک اس کے برعکس تھی۔ سرمایہ کاری کے معاملہ میں تب اختراعی صنعتوں کے حالات بہت متاثر ہوئے اور ایسا ہونا غیرمنطقی نہیں تھا۔ جب ملک کی معیشت ہی بے پٹری ہوگئی تھی تو یہ صنعتیں کیسے بچ پاتیں؟
ویسے اختراعی صنعتوں کے کاروباری چیلنجز کم نہیں ہیں۔ مثلاً مارکیٹ کی ساخت، مالی مسائل، ریگولیٹری مسائل، ٹیکس، سائبر سکیورٹی اور معاشرتی و ثقافتی چیلنجز مشکلیں پیدا کرتے رہے ہیں۔اس لیے یہ سوال بارہا اٹھتا رہا ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر نئے چھوٹے کاروبار ناکام کیوں ہوجاتے ہیں؟ حال کی بات کریں تو اپریل 2021میں ایک ہفتہ میں ہندوستان میں 6اختراعی صنعتوں کو یونی کارن کا تمغہ حاصل ہوا۔ ان صنعتوں کے معاملہ میں ایک تناظر یہ بھی رہا ہے کہ ہندوستان میں اختراعی صنعتیں پیسہ اکٹھا کرنے میں زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہیں، جبکہ صارفین کی جانب سے ان کی توجہ کمزور ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ رقم اکٹھی کرنے کے مقابلہ میں ایسا کرنا صحیح ہے، لیکن یہ بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ کمپنی کو قوت ہمیشہ صارفین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اختراعی صنعتوں کے ناکام ہونے کے کئی اسباب میں ایک بڑی وجہ کسٹمر بیس کا پھسلنا بھی ہے۔ گزشتہ سال آئی بی ایم انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ویلیو اور آکسفورڈ اکنامکس کے مطالعہ سے پتا چلا کہ ہندوستان میں تقریباً 90فیصد نئے کاروبار کچھ ہی برسوں کے اندر بند ہوجاتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ بنگلورو جو اسٹارٹ اپ راجدھانی کے طور پر جانا جاتا ہے، وہاں کووڈ کے سبب کاروبار چوپٹ ہوگیا اور اس شہر نے ہندوستان کی اختراعی صنعتوں کے گڑھ کی شکل میں اپنا مقام بھی کھو دیا۔ اب یہ تمغہ گڑگاؤں، دہلی، نوئیڈا کو مل گیا۔ حالاں کہ بنگلورو، ممبئی اور این سی آر نے جدید ہندوستان کے چہرے کو مکمل طور پر بدل دیا ہے اور ان شہروں کو اختراعی صنعتوں کے عالمی مراکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہیں پنے، حیدرآباد، احمدآباد اور کولکاتا جیسے شہروں کو ان صنعتوں کے ابھرتے مراکز کے طور پر شمار کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال ان صنعتوں میں پھر سے توانائی کی ترسیل ہوتی نظر آنے لگی ہے۔ کورونا جتنی دور ہوگا، گڈگورننس اتنی نزدیک ہوگی اور کاروبار بھی اتنا ہی سرپٹ دوڑے گا۔

حکومت کی ہر منصوبہ بندی و عمل درآمد اور اس سے حاصل نتائج گڈگورننس کی کسوٹی ہوتے ہیں۔ اختراعی صنعتوں کو بھی ایسی ہی کسوٹی پر اترنا گڈگورننس کو وسعت دینے کے برابر ہے۔ سادہ اور آسان ضوابط عمل اور کام کاج کی آسان ثقافت کو بڑھاوا دے کر ان صنعتوں کا راستہ آسان بنایا جاسکتا ہے۔ گڈگورننس ایک ایسی طاقت ہے جو سب کو امن و سکون اور خوشی دیتی ہے۔ لیکن کورونا کا اثر تو ایسا رہا کہ نئی صنعتوں کو مالی کفالت میں بھی کمی دیکھنے کو ملی۔ حالاں کہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مارچ2020بھی پچاس فیصد کی کمی پہلے ہی درج کی جاچکی تھی۔ اس سے پتاچلتا ہے کہ اختراعی صنعتوں کے تعلق سے سرمایہ کاروں کی سوچ مستقل نہیں ہوپاتی ہے یا پھر اس کی تعداد تو بڑھتی ہے مگر کوالٹی کی کمی رہتی ہے۔
قومی راجدھانی دہلی میں اختراعی صنعتوں کی حالت کی جانچ کریں تو پتاچلتا ہے کہ یہاں 2015 میں 1657نئے کاروبار قائم کیے گئے تھے۔ 2018 آتے آتے ان کی تعدادمحض420رہ گئی اور 2019 کی صورت حال تو مزید خراب رہی جب 142 کاروباروں میں ہی سرمایہ کاروں نے پیسہ لگایا۔ غور طلب ہے کہ بنگلورو جو اسٹارٹ اپ راجدھانی کے طور پر جانا جاتا ہے، وہاں کووڈ کے سبب کاروبار چوپٹ ہوگیا اور اس شہر نے ہندوستان کی اختراعی صنعتوں کے گڑھ کی شکل میں اپنا مقام بھی کھودیا۔ اب یہ تمغہ گڑگاؤں، دہلی، نوئیڈا کو مل گیا۔ حالاں کہ بنگلورو، ممبئی اور این سی آر نے جدید ہندوستان کے چہرے کو مکمل طور پر بدل دیا ہے اور ان شہروں کو اختراعی صنعتوں کے عالمی مراکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہیں پنے، حیدرآباد، احمدآباد اور کولکاتا جیسے شہروں کو ان صنعتوں کے ابھرتے مراکز کے طور پر شمار کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال ان صنعتوں میں پھر سے توانائی کی ترسیل ہوتی نظر آنے لگی ہے۔ کورونا جتنی دور ہوگا، گڈگورننس اتنی نزدیک ہوگی اور کاروبار بھی اتنا ہی سرپٹ دوڑے گا۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS