کتابوں سے دور ی،کیا ہے مجبوری؟

0

زین شمسی

اینڈرائڈ کے جنگل میں کتابوں کی دنیا بھی شیروں کی تعداد کی طرح سمٹتی جا رہی ہے۔ شیروں کو تو کم از کم سرکار کی حفاظت میسر ہے، لیکن کتابوں کو کون بچائے؟ طلبا کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ مشکل سے وہی کتابیں خریدتے ہیں جوان کے نصاب میں ہیں یا پھر مقابلہ جاتی امتحان میں اس کا کسی طور مصرف ہے۔کتابوں سے عدم دلچسپی اور دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ کالج کے طلبا صاف صاف کہتے ہیں کہ سر! جب گیس پیپر سے کام چل جاتا ہے تو کتابیں کیوں خریدیں؟ ظاہر ہے کہ ان کی یہ نفسیات ایک دودن میں نہیں بنی ہے بلکہ یہ تدریسی عمل کی بدعنوانی کا شاخسانہ ہے۔ اساتذہ نے پڑھانے کے عمل کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور طلباکے ذہن میں کتابوں کے رجحان کو بڑھاوا نہیں دے سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نصابی کتابیں بھی چھپنی بند ہوگئیں۔ پروفیسر حضرات اپنے موضوعات اور اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کتابیں خریدتے ہیں یا زیادہ ترکوشش کرتے ہیں کہ تحفتاً انہیں مذکورہ کتابیں کہیں سے موصول ہوجائیں۔اردو کتابوںکے پبلشر کاغذات کی بڑھی ہوئی قیمتوں اور شائع ہوجانے کے بعد دکانوں میں پڑی ہوئی کتابوں کا رونا روتے ہوئے کم قیمت میں کتابیں چھاپنے سے منع کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کتابیں فروخت نہیں ہوں گی تو کوئی بھی شخص کتابیں شائع کیوں کرائے گا یا کیوں کرے گا؟
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جب آپ دوسرے پہلو پر نظر ڈالیں گے توامر تعجب ہے کہ کتابیں آج پہلے کے مقابلے میں زیادہ چھاپی جارہی ہیں اورکتابوں کا انبار بھی دیکھا جا سکتا ہے، تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک طرف کتابیں معدوم بھی ہو رہی ہیں اور دوسری طرف کتابیں چھپ بھی رہی ہیں ، یہ کیسا تضاد ہے؟تب جب آپ اس کی گہرائی کو ناپیں گے تو پتہ چلے گا جو کتابیں چھپ رہی ہیں وہ کسی نہ کسی ادارے کے مالی تعاون سے شائع ہو رہی ہیں یا پھر اس لیے شائع کی جا رہی ہیں کہ اس کتاب کا ملازمت میں پرموشن سے کوئی واسطہ ہے یا پھر کسی طے شدہ ایوارڈ کے لیے اس کی ضرور ت ہے۔ آپ اگر اور بھی گہرائی سے اس کا مطالعہ کریں گے تو سچائی مزید تلخ ہوتی جائے گی، ایسی کتابیں جس کی بنیاد میں اردو ہے وہ اب لوگ نہیں خریدتے اور وہ کتابیں جو پیسہ کماتی ہیں یا پیسہ دلاتی ہیں، وہ کتابیں چھپوائی جارہی ہیں۔ اسی لیے کتابوں کی بہتات تو ہے تو مگر اسے کوئی خریدنے والا نہیں ہے، چھاپنے والے ادارے یا کتابوں پر مالی تعاون دینے والی تنظیمیں اسے ملک کی لائبریریوں میںمفت تقسیم کرکے اپنا بوجھ ہٹا دیتی ہیں۔ طلبا کتابوں سے زیادہ گوگل، وہاٹس ایپ یا دیگر وسائل سے اپنے کام کی چیزیں دیکھ لیتے ہیں یا اس کاپرنٹ آئوٹ نکال لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ لوگ کتابوں کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
ابھی این سی پی یو ایل کا کتاب میلہ اختتام پذیر ہوا۔ لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ کتابوں کو دیکھنے اور خریدنے کی چاہت لوگوں کو اس طرح کے کتاب میلہ میں لے جاتی ہے لیکن کتابوں کے سطحی افکار انہیں مایوس کرتے ہیں۔ ہندوستان کی تمام ریاستوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ این سی ای آر ٹی اورا ین بی ٹی سے اپنی لائبریریوں اور کالج کے لیے کتابیں خرید سکتی ہیں، لیکن اب زیادہ تر ریاستیں اس فنڈ س سے کتابیں نہیں خریدتیں بلکہ اس کا استعمال کسی دوسرے مد میں کر دیتی ہیں۔ کتابوں کو نہ خریدنے کی بیماری ایک وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ کتابوں کی جگہ موبائل نے لی ہے۔ بچے ، جوان اور بوڑھے سب کے سب زیادہ تر اپنے موبائل پر وقت دیتے ہیں۔بہت کم گھر میں آپ دیکھیں گے کہ کوئی شخص بغیر موبائل کے کچھ کرتا نظر ا ٓرہا ہو۔ یہاں تک کہ مہمان کی موجودگی میں بھی موبائل پر گیم یا میمس دیکھے جاتے ہیں اور مزہ تو تب آتا ہے جب مہمان بھی اپنے موبوئل کو آن کر کے اسی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ موبائل اور خاص کر اینڈرائڈ فون اگر زندگی کو آسان کرنے کا بہترین وسیلہ بنا تو دوسری طرف اس کے منفی پہلو نے اسے شیطان کا ساتھی بنا دیا ہے۔ بچوں کے مستقبل کو تاریک کرنے میں موبائل فون کا کردار اہم ہو چکا ہے۔
آخر اس بیماری کا علاج کیا ہے؟ بہت غور کرنے کے بعد بھی اس کا حل نہیں نکال سکتے ہیں، کیونکہ دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور یہ اتنی تبدیل ہو چکی ہے کہ جہاں بھی کاروبار ہوگا یہ دنیا ادھر کی طرف ہی جھکے گی۔ آج آن لائن اسٹڈی کے نام پر، کوچنگ کے نام پر اور لاک ڈائون کے بعد اسکولوں میں آن لائن پڑھائی کے نام پر آپ اینڈرائڈ موبائل سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔ کبھی بچوں کو موبائل سے دور رکھنے کی تلقین کی جاتی تھی، اب اسے موبائل خرید کر دیا جانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس لیے موبائل کو نظر انداز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن سا ہو گیا ہے۔ اس لیے اب یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ ہم کس طرح اس کا استعمال کم وقتوں میں کریں، یہ تو طے ہوچکا ہے کہ موبائل کے ہوتے ہوئے کتابوں کی قدر میں اضافہ نہیں ہوگا، لیکن تب یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ ہم بچوں میں، خود میں اور دوسروں میں کتابیں پڑھنے کی عادت اور ضرورت کو رواج دلائیں تاکہ ہمیں جو جانکاری ملے وہ حقائق پر مبنی ہو، نہ کہ وہاٹس ایپ یونیورسٹی سے حاصل کی جانے والی معلومات ہماری زندگی کو متاثر کر سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کتابیں ایسی شائع کی جائیں جس میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ وافر معلومات ہوں۔
آج ہندوستان میں نظریات کی لڑائی میں کتابیں ہی فیصلہ کر رہی ہیں کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔ ایک طرف کتابیں ہیں اور ایک طرف وہاٹس ایپ یونیورسٹی کی افواہی معلومات۔ آج جس طرح کی دنیا بنائی جارہی ہے اس میں کتابوں سے دوری حکام کی ترجیحات ہے۔ کتاب سے دور ہوں گے تو ہر مقام پر آپ کو اکبر پریاگ راجی سے ہی سامنا ہوگا ، آپ اکبر الٰہ آبادی سے محروم ہو جائیں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS