آسام میں مسلم ووٹرس کدھر جائیں گے؟

0

قربان علی
جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان میں ’’مسلم ووٹرس کا رجحان کیا ہوگا؟‘‘ ان میں سے ایک مغربی بنگال کا ذکر ہم نے کل کیا تھا۔ اسی سلسلہ میں آج بات آسام کی۔ آسام میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً سوا چوتیس فیصد(34.22%) ہے۔ یعنی جموں و کشمیر کے بعد ملک کی سب سے زیادہ مسلم آبادی اسی ریاست میں رہتی ہے۔ ان 1.22کروڑ مسلمانوں میں سے 46لاکھ آسام کے مسلمان ہیں جب کہ باقی بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔ آسام کے 34اضلاع میں سے 9دھبری، بارپیٹ، گوالپاڑہ، دررانگ، کریم گنج، ہلاّکانڈی، موری گاؤں، ناگاؤں اور بوگاڑ گاؤں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
آزادی کے بعد سے کانگریس پارٹی ایک طویل عرصہ تک مسلم ووٹوں کو یکمشت بٹورتی آرہی تھی اور 2006کے اسمبلی انتخابات تک عام طور پر مسلم ووٹرس کا جھکاؤ کانگریس پارٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اسی بنیاد پر 1980میں محترمہ انورا تیمور ریاست کی وزیراعلیٰ تک بن گئی تھیں جو اب تک کسی ریاست میں بنی پہلی مسلم خاتون وزیراعلیٰ ہیں۔ لیکن جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ رہے بدرالدین اجمل نے 2006میں پہلی مرتبہ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ(اے آئی یو ڈی ایف) پارٹی بناکر جو خاص طور پر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی پارٹی ہے، الیکشن لڑا اور اس پارٹی کے دس امیدوار الیکشن جیتے اور اس طرح انہوں نے کانگریس کے اس ووٹ بینک کو توڑ دیا۔
2009کے لوک سبھا انتخابات میں بدرالدین اجمل دھبری سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے اور ان کی پارٹی نے 2011کے اسمبلی انتخابات میں 18نشستیں جیتیں۔ 2014کے لوک سبھا انتخابات میں بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف پارٹی نے لوک سبھا کی تین نشستیں جیتیں۔ 2016کے اسمبلی انتخابات میں بدرالدین اجمل نے 74سیٹوں پر الیکشن لڑا لیکن ان انتخابات میں ان کی پارٹی کے ایم ایل اے کی تعداد 18سے کم ہوکر 13رہ گئی۔ اس مرتبہ آسام میں بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کانگریس پارٹی نے اے آئی یو ڈی ایف، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی(مالے) اور آنچلک گن مورچہ کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ اس لیے اس مرتبہ اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف کے ایم ایل اے کی تعداد میں اضافہ ہونے کے آثار ہیں۔
اس مرتبہ کے اسمبلی انتخابات میں حکمراں بی جے پی نے آسام میں دوہری حکمت عملی بنائی ہے۔ ایک جانب تو پارٹی آسام میں ہندوؤں کو متحد کرکے اپنا ووٹ بینک مضبوط کررہی ہے تو دوسری جانب پارٹی مسلم ووٹوں کو منقسم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ایک برس قبل آسام میں بی جے پی حکومت نے ’انڈی جنس‘ یعنی سودیشی مسلمانوں کی تعداد کا پتا لگانے کے لیے گھر گھر جاکر سروے کرایا تھا۔ اس وقت آسام حکومت کے اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر رنجیت دتّا نے سودیشی مسلمان کہے جانے والے گوریا، موریا، دیسی اور جولاہ جیسے مسلم طبقوں کے ساتھ ایک میٹنگ کرکے کہا تھا کہ ’’سودیشی مسلمانوں کے نمائندوں نے جو مشورے دیے ہیں، ہم نے اسے قبول کیا ہے۔ اسی بنیاد پر سودیشی مسلمانوں کی معاشرتی-معاشی مردم شماری گھر گھر جاکر منعقد کی جائے گی۔‘‘ اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر رنجیت دتا نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’سودیشی مسلمانوں کی مردم شماری کے بعد جو ڈیولپمنٹ کارپوریشن بنائے جائیں گے ان کے نام کے آگے انڈی جنس اور مسلمان لفظ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے کیوں کہ یہ خدشہ ہے کہ بنگلہ دیشی مسلمان اس میں اپنا نام درج کرانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ہم اپنے گزشتہ بجٹ میں کیا گیا وعدہ پورا کررہے ہیں۔‘‘
اس وقت ریاست کی کئی مسلم تنظیموں اور اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی پر الزام لگایا تھا کہ ’’ملک میں این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون سے متعلق پیدا ہوئے ماحول میں بی جے پی آسام کے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرکے دوراندیشانہ سیاست کررہی ہے اور سودیشی مسلمانوں کی الگ سے مردم شماری کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ جب کہ بی جے پی نے اپنی چار سال کی حکومت میں اقلیتی افراد کی ترقی کے نام پر کوئی کام نہیں کیا۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’اگر موجودہ حکومت سب کا ساتھ، سب کا وکاس والی پالیسی پر صحیح طریقہ سے کام کرتی تو سودیشی مسلمان اور باقی مسلمانوں کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لوگوں کو روزگار، اچھی تعلیم اور صحت خدمات چاہئیں۔ لیکن بی جے پی فرقہ واریت اور تقسیم کی پالیسی پر کام کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان بدامنی پیدا کرنا چاہتی ہے اور ’انڈی جنس مسلمان‘ کے نام پر سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے میں لگی ہے۔‘‘
دوسری جانب گوریا، موریا، دیسی اور جولاہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کے نام پر ان کی ہر علاقہ میں شراکت داری کا فائدہ بنگال نژاد مسلمان اٹھا لے جاتے ہیں۔ جب بات اقلیتوں کی ہوتی ہے تو اس میں اسلام کو ماننے والے سبھی لوگوں کو شامل کرلیا جاتا ہے لیکن آسام میں پہلے چار سودیشی مسلمان طبقوں کی تعداد ہی زیادہ تھی۔ بعد میں بنگال نژاد مسلمانوں کے یہاں آجانے سے ان کی تعداد کافی کم ہوگئی۔ گوریا، موریا، دیسی اور جولاہ مسلمان طبقوں کے لوگ اقلیتوں کے اندر اقلیت بن گئے۔ سیاست سمیت کئی شعبوں میں ان کی شراکت داری کم ہونے کے سبب اقلیتوں کی فلاح کے نام پر سرکاری اسکیموں کا فائدہ بنگال نژاد مسلمان اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور سیاسی شراکت داری بھی۔ آسام میں ایک کروڑ22لاکھ مسلمانوں میں تقریباً 46لاکھ سودیشی مسلمان ہیں لیکن ان میں ہمارے طبقہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ایک بھی مسلم نمائندہ نہیں ہے۔ سیاسی نمائندگی نہیں ہونے کے سبب ہمیں حکومت کی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملتا۔‘‘ادھر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ’’گوریا، موریا، دیسی اور جولاہ مسلمان طبقوں کی ترقی ہو لیکن اس ترقی کے نام پر تقسیم کرنے والی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
اس درمیان نیشنل رجسٹر آف سٹیزن(این آر سی) سے متعلق شروع ہوئی سیاست سے بھی تقسیم ہوئی ہے۔ بی جے پی نے 2016کے اسمبلی انتخابات سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ آسام میں غیرقانونی دراندازی کرنے والے ہندوؤں کو تو ہندوستان کے شہری کا درجہ دیا جائے گا لیکن مسلمانوں کو نہیں۔ اس طرح مذہبی بنیاد پر پولرائزیشن کے لیے سیاسی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ بنگلہ دیش سے آئے ہندوؤں کو شہری ہونے کا درجہ دینے سے آسام ہندو اکثریتی ریاست بنی رہے گی۔
2016کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 89سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور اسے 60نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ جب کہ کانگریس پارٹی نے 122سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور محض26نشستیں جیتی تھیں۔ آسام گن پریشد(اے جی پی) نے30نشستوں پر الیکشن لڑا تھا اور اس نے 14نشستوں پر جیت حاصل کی تھی۔ سی پی ایم، سی پی آئی اور سی پی آئی(ایم ایل) کو ایک بھی نشست پر جیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں 30مسلم امیدوار آسام اسمبلی کے لیے منتخب کیے گئے تھے۔ ان میں سے 15کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر 13، اے آئی یو ڈی ایف کے اور 2بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے۔ غور طلب ہے کہ بی جے پی نے اپنے جن 88لوگوں کو امیدوار بنایا تھا ان میں 9مسلم امیدوار تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی نے اس الیکشن میں مسلم ووٹرس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تقریباً 2ہزار مولویوں کو انتخابی مہم میں اُتارا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ کے الیکشن میں بی جے پی مسلم ووٹوں کی تقسیم کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا بدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن کرکے کانگریس پارٹی کو اقتدار دلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS