آصف تنویر تیمی: مناقب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

0

آصف تنویر تیمی
اہل سنت والجماعت کا اس بات بات پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ میں سب سے افضل ابو بکر، پھرعمر، پھر عثمان اور پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم ہیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں سب سے محبوب تھے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:آپ کے نزدیک سب سے پسندیدہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ، عمرو کہتے ہیں: میں نے کہا: مردوں میں ؟ کہا: ان کے والد(یعنی ابوبکر)‘‘۔(صحیح بخاری)ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ لوگوں میں میرے اوپر مصاحبت اور مال وسرمایہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے، اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کو بناتا، مگر اسلامی بھائی چارہ کافی ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)اس بات پر بھی تمام مفسرین اور مورخین کا اتفاق ہے کہ ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصاحب ورفیق ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ہجرت کی رفاقت اور مصاحبت کا بدلہ کوئی اور شے نہیں ہوسکتی۔
دیگر صحابہ کرام بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ سے بخوبی واقف تھے۔ ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اگر ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کا ایمان ایک جانب اور ساری دنیا کے لوگوں کا ایمان دوسری جانب رکھا جائے تو ابو بکر کا ایمان بھاری پڑے گا‘‘۔( فضائل الصحابہ، لأحمد بن حنبل) علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، خیر کے کسی بھی کام میں، میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت نہیں لے جاسکا‘‘۔ ( مجمع الزوائد،للہیثمی)
ایمان لانے کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ مسلسل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وبازو بنے رہے۔ ہر موڑ پر اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ اسلام کی تبلیغ نشر واشاعت میں آپ نے بڑی اذیتیں برداشت کیں۔ مار کھاتی۔گالیاں سنیں۔ طعن وتشنیع سہا۔ مگر کبھی پیشانی پر شکن نہ آیا۔ آپ کی دعوت سے متاثر ہوکر بہت سارے صحابہ مسلمان ہوئے۔ آپ نے کثیر تعداد میںغلاموں کو آزاد کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کو اعلی اور مستحکم فکر سے نوازہ تھا۔ مشکل ترین اوقات میں بھی آپ کے اوسان خطا نہ کرتے تھے۔ صبر وضبط آپ کی زندگی کا خاص وصف تھا۔ جس کا نظارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت دیکھنے کو ملا۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ جب حزن وملال کی وجہ سے اپنا آپا کھوچکے تھے۔ ایسے وقت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ پورے ہوش وحواس میں غمزدہ صحابہ کو تسلی دے رہے تھے۔ اور اس امر کا اعادہ کررہے تھے کہ جس طرح عام لوگوں کو موت آنی ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔اور موت کی صداقت سے متعلق کئی آیتوں کی تلاوت کرکے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حقیقت سے آشنا کرایااور انہیں اس بات کا قائل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوچکی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین سے قبل صحابہ کرام نے خلیفہ کو منتخب کرنا مناسب سمجھا۔ اس کے لئے مہاجرین اور انصار سقیفہ بنی سعدیہ میں اکھٹا ہوئے۔یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس وقت کے حالات وظروف اور عرب معاشرے کی روایت کے مطابق خلیفہ کا تعین ضرروی تھا تاکہ آگے کے مسائل حل ہوسکیں۔ انہی وجوہات کے پیش نظر صحابہ کرام نے تدفین وتکفین سے قبل خلیفہ کا انتخاب ضروری سمجھااس کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں تھی جیسا کہ بعض لوگ اس تعلق سے ذکر کرتے ہیں۔
خلافت پر بیعت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اللہ کی قسم! امارت مجھے کبھی مجھے شوق نہیں رہا۔ اس تعلق سے میں نے کبھی اللہ سے دعا بھی نہیں کی۔بہرحال میں فتنے سے خوف زدہ تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ خلافت کوئی راحت وآرام کی چیز نہیں۔ لیکن میں ایسے معاملے کا مکلف بنایا دیا گیا ہوں جس کی میرے اندر استطاعت نہیں پائی۔ میری خواہش تھی کہ مسلمانوں کا سب سے طاقت آدمی میری جگہ پر ہوتا‘‘۔ (مستدرک حاکم) بیعت ہی کی مناسبت سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اللہ نے تمہارے معاملات کو تم میں کے سب سے اچھے شخص کے ماتحت کردیا ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور یارغار ہیں، اس لئے ان کی بیعت کے لئے کھڑے ہوجاؤ‘‘۔سعد بن ابی وقاص او رعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہمانے بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کی۔ سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہکر گمراہ نے کوشش کی گئی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سعد بن ابی وقاص اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی جو یکسر غلط ہے۔ بالفرض اگر ان دونوں نے بیعت نہ بھی کی تو اس سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لئے کہ جمہور صحابہ نے بیعت کی۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد مسجدنبوی میں پہلی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:’’لوگو! میں آپ لوگوں کاحاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ میں آپ لوگوں سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میرا کام اچھا ہو تو آپ میرا تعاون کرنا، اگر کہیں مجھ سے غلطی ہو تو میری اصلاح فرمانا۔ سچائی امانت ہے۔ جھوٹ خیانت ہے۔ آپ میں جو کمزور ہیں میری نگاہ میں وہ طاقت ور ہیں یہاں تک میں ان کا حق انہیں نہ دلوادوں۔ اور جو آپ میں طاقت ور ہیں میری نگا ہ میں وہ کمزور ہیں یہاں تک میں ان سے (دوسرے کا) حق نہ لے لوں۔ جہادترک کرنا ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔ فحش کاری آفات ومصائب کا واضح سبب ہے۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں آپ میری پیروی کرتے رہنا۔ اگر میں کتاب وسنت کی مخالفت کروں تو میری پیروی آپ پر لازم نہیں ‘‘۔ (مصنف عبدالرزاق)ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ تقریر آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کاش کے آج کے حکمراں بھی ان باتوں پر عمل کرتے۔
آپ کے بے شمار سنہرے کارنامے اسلامی تاریخ میں در ج ہیں۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لشکر کو شام کی طرف روانہ کرنا ہے۔ جس کا کافی بہتر اثر اسلامی دنیا پر پڑا۔ اس کے بعد اسلام کا رعب لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا۔ کثیر تعداد میں لوگ اسلام قبول کرنے لگے۔ حالانکہ چند بڑے صحابہ نے شروع میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس موقف سے اختلاف کیا لیکن بعد میں سب نے تسلیم کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ سخت موقف بروقت مناسب اور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہے۔ اس جنگ میں رومیوں کی پسپائی ہوئی اور مسلمان غنیمت سے مالا مال ہوئے۔ اس جنگ کے بعد بڑی بڑی طاقتیں مسلمانوں سے لرزنے لگیں۔ مسلمانوں کی ہیبت پورے طور پر دشمنوں کے دل میں داخل ہوگئی۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کی کمر توڑ ڈالی۔ اور ارتداد کے فتنہ کو پورے طور پر ختم کیا۔ نبوت کے بعض دعویدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری مرحلہ میں پیدا ہوگئے تھے مگر آپ کی وفات کے بعد اس کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ اگر بروقت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی بیخ کنی نہ کرتے تو بڑا فتنہ جنم لے سکتا تھا۔ مرتدین کی مختلف شکلیں تھیں۔ بعض نے مکمل طور پر زکوۃ کی ادائیگی کو بند کردیا ، بعض نے خلیفہ کو دینے سے منع کردیا، بعض نے اسلام کے عہد ومیثاق کو توڑنا شروع کیا، اور بعض شرکیہ اعمال پر مصر رہے، ایسے تمام طرح کے لوگوں کے خلاف ابو بکر رضی اللہ عنہ نے محاذ آرائی اورفوج کشی کی جس کے بعد یہ فتنہ سرد پڑا۔ اسی ضمن میں وہ جنگیں ہیں جو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبوت کے دعویداروں کے خلاف کیں۔ جو صرف عصبیت کے بنیاد پر نبوت کے دعوی کررہے تھے۔ نبوت کے ان جھوٹوں میں اسود عنسی، مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی، لقیط بن مالک اور سجاح بنت الحارث کا نام قابل ذکر ہیں۔ان میں سے اکثر لوگ اپنے انجام کو پہنچے، جو اس وقت کے مطابق آسان نہیں تھا۔ بڑے بڑے قبائل ان کے سپورٹ میں تھے۔ تاہم کسی کی پروا کئے بغیر ابو بکر رضی اللہ عنہ ان سب کا قلع قمع کیا۔ ان چیزوں کو دیکھ کر لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ اسلام جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مضبوط تھا اتنا ان کی وفات کے بعد بھی ہے، اسلام اور مسلمانوں کی قوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے،بلکہ عراق اور شام کے بڑے بڑے شہرابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوئے، جس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS