عالمہ زہرا بتول صابری: پیکر رشدوہدایت سرکار غوث اعظم ؒ

0
image:ummid.com

عالمہ زہرا بتول صابری
بندگان خدا میں جب نافرمانی پھیلتی ہے اور نافرمانی عام ہو جاتی ہے تو رب کریم کی رحمت بے پایا متوجہ ہوتی ہے اور خداوند قدوس اپنے خاص بندوں میں سے کسی نہ کسی کو پیکر رشد و ہدایت بنا کر بھیجتا ہے ، اب تک انبیاے کرام رشد و ہدایت کے چراغ بن کر دنیا والوں کو راہِ ہدایت دکھاتے رہے۔ خاتم النبیین کے بعد یہ اہم ذمے داری سرکار دو عالم کی امت کی مقدس و ممتاز ترین شخصیتوں کے سپرد رہی اور اس کے ثبوت میں ہم حضور کے امت کے ایک برگزیدہ عالم سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا ذکر جمیل پیش کرتے ہیں:
نام مبارک :۔ سید عبد القادر رضی اللہ عنہ
کنیت :۔ ابو محمد
لقب۔ : محی الدین ، غوث اعظم ، محبوب سبحانی ، پیران پیر دستگیر
مقام ولادت :۔ ایران کے ایک شہر گیلان (جیلان )
تاریخ ولادت:۔ یکم رمضان المبارک 470 ھ
مزار انور :۔ بغداد شریف
عمر شریف :۔ 91 سال
والد ماجد :۔ حضرت ابو صالح موسی جنگی دوست
والدہ ماجدہ: ام الخیر فاطمہ ثانی
تمام بزرگان دین کا اتفاق ہے کہ آپ مادر زاد ولی ہیں۔ چناچہ ولادت کے بعد ہی آپ کی یہ کرامت ظاہر ہوئی کہ آپ رمضان میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کبھی دودھ نہیں پیتے تھے یعنی رمضان شریف کے پورے مہینے آپ روزہ رکھتے تھے اور جب افطار کا وقت ہوتا ، مغرب کی اذان ہوتی ، تو آپ دودھ پینے لگتے ، یہ کرامت اس قدر مشہور ہوئی کہ جیلان کے ہر طرف یہ شہرہ اور چرچا تھا کہ سادات کے گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دن بھر دودھ نہیں پیتا۔(قلائد الجواہر ، ص3)
آپ نے بچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا ۔ابھی آپ کی عمر زیادہ نہ تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیا ۔ آپ نے والدہ محترمہ سے تکمیل عم کے لیے بغداد جانے کی اجازت طلب کی ، آپ بغداد تشریف لائے ، تفسیر حدیث، فقہ و دیگر علوم کی تحصیل میں مشغول ہو گئے ۔ طالب علمی کے زمانے میں جن مصائب و تکالیف سے دو چار ہوئے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ بغداد میں بظاہر آپ کا کوئی مددگار و غم خوار نہ تھا ، والدہ محترمہ کبھی کبھی کچھ مختصر درہم و دینار بھیج دیا کرتی تھیں ، اسی سے خورد و نوش کا کام چلتا تھا ، اس وقت آپ کو بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ علمی ظاہری و باطنی سے فراغت کے بعد ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہو گئے، ویرانیوں اور جنگلوں میں بھوکے پیاسے گشت کرتے رہتے اور کبھی کبھی چالیس چالیس دنوں تک بے آب و دانہ مسلسل عبادت و ریاضت میں مشغول رہ کر خواہشات نفسانیہ سے جہاد فرماتے رہتے۔ (انوار البیان)
اس اہم واقعہ سے ہمیں یہ درس لینا چاہیے کہ تکلیف و دشواری کے راستوں سے گزرے بغیر منزل مقصود کا ملنا مشکل ہے اور علم ظاہر کے بعد علم باطن یعنی طریقت و تصوف کا علم بھی حاصل کرنا چاہیے۔ غوث اعظم کی ذات با برکت سراپا کرامت ہی کرامت تھی۔حضرت شیخ علی ابن نصر رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے کسی ولی کو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کرامت والا نہیں دیکھا جس وقت چاہتے آپ کی کوئی کرامت دیکھنا اسی وقت لوگ دیکھ لیتے۔(تفریح الخواطر)
سرکار غوث اعظم بہت ذہین ،بڑے محنتی، بے حد متحمل و صابر ، بے خوف و مستقل انسان مزاج تھے۔ اللہ کا خوف دل میں رکھنے والے اور مستجاب الدعاء تھے ۔ رفیق القلب ، نرم طبع ، اور سادہ لوح تھے ۔ اتنی بزرگ شخصیت کے اندر اعلیٰ ترین مقام پر ہونے کے باوجود اپنی شان و رفعت کا ذرہ برابر بھی تصور نہ تھا۔ ہر کس و ناکس سے کمال انکساری کے ساتھ ملتے تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کہیں جا رہے تھے، اثنائے راہ میں ایک گلی سے آپ کا گزر ہوا کچھ بچے جہاں کھیل رہے تھے ۔افتاد طبع کے مطابق ان بچوں سے محبت و شفقت سے پیش آئے ۔بچے تو پھر بچے ہیں وہ آپ کی عظمت و شخصیت کو کیا جانیں ، چنانچہ ایک بچہ نے آگے بڑھ کر کہا کہ ایک پیسہ کی آپ مجھے مٹھائی لا دیجیے _بلا تامل آپ نے اسے مٹھائی لا کر دے دی ، اب تو دوسرے بچوں کو بھی جرات ہوئی اور انھوں نے بھی مٹھائی کے لیے پیسے دینے شروع کیے لیکن آپ نے کسی بچے کو انکار نہ کیا اور سب کو مٹھائی لا کر دی ۔
گھر والوں پر بھی آپ کی یہی کیفیت رہتی تھی۔ آپ کی بیویوں میں سے اگر کسی کی طبیعت خراب ہو جاتی تو خود گھر کے سارے کام دست مبارک سے کرتے، خود ہی آٹا گوندھ کر روٹیاں پکا لیتے تھے، اکثر کنویں سے پانی بھر کر لاتے غرض کہ کسی کام سے آپ کو عار نہ تھی آپ کی یہ طرز زندگی گھر تک ہی موقوف نہ تھی بلکہ ہر جگہ آپ کا یہی انداز ہوا کرتا تھا۔ زندگی کی ابتدائی دور سے لے کر آخری لمحات تک کلمہ کذب زبان پر جاری نہ ہونے پایا یہ آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے اخلاق حسنہ و حیات طیبہ کے ذکر جمیل کو پڑھیں اور سوچیں کہ اسلام اپنے چاہنے والوں سے کن پاکیزہ کردار و اعلیٰ اخلاق کا مطالبہ کرتا ہے اور دنیا میں فلاح و آخرت کی سرخروئی حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کے اخلاق کریمانہ و اوصاف حمیدہ درکار ہیں۔ اگر مسلمان شہنشاہ جیلاں کی مقدس زندگی کے آئینہ میں یہ اوصاف کریمانہ پیدا کر لیں تو یقیناً یہ مسلمان کے لیے زبردست کامیابی و سعادت مندی کی ضمانت ہیں۔ خصوصاً سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے عقیدت و محبت رکھنے والوں کو روحانی پیشوا سرکار بغداد کی مبارک زندگی کے اصولوں کو اپنا کر سعادت مندی حاصل کرنی چاہیے۔
حضرت سیدنا غوث اعظم کی ازواج کی تعداد چار ہے:
حضرت سیدنا بی بی مومنہ رحم اللہ علیہا
حضرت سیدنا بی بی صادقہ رحم اللہ علیہا
حضرت سیدنا بی بی مدینہ رحم اللہ علیہا
حضرت سیدنا بی بی محبوبہ رحم اللہ علیہا
روایت کے مطابق حضرت سیدنا غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کی ان چاروں ازواج سے 27 بیٹے اور 22 بیٹیاں تولد ہوئیں۔ آپ کے بیٹوں کے علاوہ آپ کی بیٹیوں نے بھی تصوف کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ مولیٰ ہمیں ان صالح بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS