خلیج سے واپس آئے لوگوں کی پریشانی

0

کورونا کی مار سماج کے ہر طبقہ پر پڑی ہے اورپچھلے سوا برس سے ہر کوئی پریشان ہے ۔کسی نے اپنوں کو کھویا تو کوئی علاج میں برباد ہوگیا۔ کسی کا کاروبار لاک ڈائون کی وجہ سے ختم ہوگیا یا اسے بہت زیادہ نقصان ہوا تو کسی کی ملازمت چلی گئی ۔زیادہ تر لوگوں کی آمدنی کافی متاثر ہوئی جس سے گھر چلانے اور بچوں کو پڑھانے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔مہنگائی کی مار الگ پڑرہی ہے۔ کورونا کے اثرات کم توہوگئے لیکن بڑھتی مہنگائی مستقل مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ تعلیم کا بہت زیادہ نقصان ہواہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے بھی پارلیمنٹ میں پیش اپنی رپورٹ میں اس بات پر مہر لگادی ہے کہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے اسکول بندہونے سے طلباکے دماغ پر گہرااثر پڑا ہے ۔آن لائن تعلیم حقیقی تعلیم نہیں ہے، ان غریب طلباکو بہت نقصان ہوا، جوڈیجیٹل سہولیات سے محروم ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں طلبا بنیادی معلومات خاص طور سے ریاضی، سائنس اورلسانیات میں کافی کمزور ہوگئے ہیں۔ان سب کے علاوہ سماج کا ایک اورطبقہ ہے جو خلیجی ممالک میں ملازمت کرتا ہے اورملک کی جی ڈی پی میں بڑا رول اداکرتاہے۔ وہ مجبوری میں ملک آکر اس طرح کھوگیا ہے کہ اس کی بات ہی نہیں ہورہی ہے، حالانکہ اس طبقہ کے لوگوںکی زندگی بہت پریشانی میں گزررہی ہے۔ان کے سامنے روزگار کا بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے ۔ نہ ملک میں ملازمت مل رہی ہے اورنہ خلیجی ممالک واپسی کی راہ ہموارہورہی ہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ کووڈ اورلاک ڈائون سے ملک کی معیشت کافی متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں۔ایسے میں جب اندرون ملک بڑی آبادی بے روزگار ہوگئی تو باہر سے آئے لوگوں کیلئے مواقع کہاں سے پیداہوں گے۔ سب سے زیادہ پریشان خلیجی ممالک سے آئے لوگ ہیں۔جو عموماً دو ڈھائی سال بعد دوڈھائی مہینے کیلئے گھر آتے ہیں۔جو لوگ دسمبر2019کے بعدسے ہندوستان آئے،ان میںسے بیشتر واپس نہیں جاسکے۔ کیونکہ مارچ 2020میںجو انٹرنیشنل اڑانیں بند ہوئیں، اب تک بہت سے ملکوں کیلئے باقاعدہ شروع نہیں ہوسکیں۔ ان کو وطن میںاورخلیج واپسی میں درپیش پریشانیوں کو دیکھ کر بہت سے لوگ وطن واپسی کی ہمت نہیں کرپارہے ہیں ۔
مرکزی وزارت خارجہ کے اعدادوشمار کے مطابق کووڈ کے دوران صرف خلیجی ممالک سے 7لاکھ 16ہزارسے زیادہ لوگ ہندوستان واپس آئے ہیں۔ ان میں جون تک 31ہزار لوگوں نے سودیش کوشل کارڈ کیلئے رجسٹریشن کرایا اور8جون تک آتم نربھر اسکلڈامپلائی۔ امپلائرمیپنگ (اے ایس ای ای ایم ) پر رجسٹرڈ امپلائرس نے 6,704لوگوں سے روزگارکیلئے رابطہ قائم کیا ۔یہ بات 5اگست کو مرکزی وزیرخارجہ ڈاکٹرایس جے شنکر نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتائی تھی ۔ اس طرح کی رپورٹیں بھی ہیں کہ مرکزی اورریاستی حکومتیں خلیجی ممالک سے وطن واپس آئے لوگوں کو روزگار سے جوڑنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن میپنگ پورٹل کے اعدادوشمار سے صاف صاف پتہ چل رہا ہے کہ امید کے مطابق روزگار کے مواقع نہیں مل رہے ہیں۔جتنی بڑی تعداد میں لوگ خلیجی ممالک سے واپس آئے ہیں، اس کے حساب سے روزگار کے مواقع پیدا کرنا آسان نہیں ہے۔وہ بھی ایسے وقت جب ملک میں پہلے سے بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے۔ اس طرح خلیج سے جن کی کمائی سے پورا کنبہ چلتا تھا ، اب وہی اپنے وطن میں بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔ خلیجی ممالک سے واپس آئے 7لاکھ 16ہزارسے زیادہ لوگ ہی پریشان نہیںہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کے کنبہ میں موجود تمام لوگ بھی پریشان ہیں،جن کی زندگی ان کی کمائی سے چلتی تھی۔اگر ایک کنبہ میں 4افراد بھی ہوں تو یہ تعداد ساڑھے 28 لاکھ سے ہوجائے گی ۔ایسے میں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔اس پر توجہ دینا اورمسئلہ کا فوری حل تلاش کرنا وقت کی ضرورت اورتقاضاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS