مخلوط آبادی کو یک رنگ نہیں بنایا جا سکتا

0

عبدالسلام عاصم

مخلوط آبادی میں مسیحی یک رنگی پیدا کرنے کی غیر عقلیت پسند اور ضد پر مبنی کوششیں جب تشدد، خونریزی اور بدترین تباہی کی حدیں پار کرنے لگیں تو ایک مرحلے پراہلِ یوروپ کو یہ محسوس ہونے لگاوہ جہاں آباد ہیں وہ کوئی مسیحی خطہ نہیں جہاں ہر کسی پر بس کلیسائی فرمان ہی چلے گا اور اسقفوں کی سوچ اور موقف سے جامد اتفاق نہ کرنے والے کو جینے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔موجودہ یوروپ اسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے جو اب ایک سے زیادہ قوموں اور تہذیبوں کی نمائندگی کرتا ہے جس میں براہیمی ادیان کے ماننے والوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بھی زندگی سے معاملات کرنے کے یکساں حقوق حاصل ہیں۔
اس کے برعکس بعض حلقوں بشمول بر صغیر میںمخلوط آبادی آج بھی اکثریت اور اقلیت کی گردان میں اُلجھی ہوئی ہے۔اس میں ایک چیز جو تکلیف کا باعث بنتی ہے وہ یہ ہے کہ سماجی معمولات میں مسلسل خلل پڑنے کے ایک مر حلے پر بین برادری تعلقات میں کشیدگی شدت اختیار کر جاتی ہے اور نسبتاً کمزور پڑنے والا فریق دوسرے کے خیالات کو فیصلوں کے طور پر دیکھنے لگتا ہے۔ اس طرح عمل اور رد عمل سے انگیخت واقعات کی روشنی میں فریقین کو وہی سب کچھ نظر آنے لگتا ہے جو پہلے سے اُن کے دماغ میں چل رہا ہے۔ متاثر حلقوں میں اس تجربے سے صرف عام آدمی ہی نہیں گزرتا بلکہ وہ لوگ بھی زد میں آ جاتے ہیں جو نسبتاً بہتر شعور رکھتے ہیں۔
غلط فہمی کے تاثرات کسی کی ذاتی زندگی اور وسیع دنیا دونوں پر مرتب ہوتے ہیں۔بر صغیر کا موجودہ منظر نامہ اسی کا ایک بڑا کینوس ہے۔یہ سلسلہ نہ تو ایکدم سے شروع ہوا ہے اور نہ ہی جلد ختم ہو سکتا ہے کیونکہ جہاں نکاس کا اچھااور سائنٹفک نظم نہیں ہوتا، وہاں بارش سے پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت بارش کے تھمتے ہی ختم نہیں ہوجاتی ۔ اس سلسلے کو بہر حال توڑنا ضروری ہے تاکہ ہم صحیح طریقے سے یہ علم سیکھ سکیں کہ معاملات کو واضح طریقے سے کیسے سمجھا جاتا ہے اور اُنہیں بہتر رخ پر کس طرح نتیجہ خیر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کوشش سے مرحلہ وار گزر کر ہی ہم اُن خرابیوں کے ازالے کی طرف بڑھ سکتے ہیں جن کا سر دست ہم اپنی قومی زندگی میں سامنا کر رہے ہیں۔
سابقہ صدی کے وسط کے فرقہ وارانہ تجربے اور اس کے بدلتے نتائج کے موجودہ خد و خال کا ایماندارانہ جائزہ لیتے ہوئے ہم اگر سماجی، سیاسی اور فرقہ ورانہ تعلقات سمیت ہر نوع کے بین فرقہ معاملات پر گہری نظر ڈالیں توافسوس اور تکلیف کے ساتھ ہی سہی ہم ایسے اختلافات کی نشاندہی کرسکتے ہیں جن میں اگر ایک حلقے کی باتوں یا ارادوں کاکوئی غلط مفہوم نکالا گیا ہے تو دوسری طرف بھی ارادوں پر شبہ کو اتنی اہمیت دی گئی کہ رابطے کو تفہیم کا ذریعہ بنانے کے بجائے دفاعی انداز اختیار کیا گیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔فکر و نظر کے اس منظر نامے کو بدلنا مشکل ضرور ہے، ناممکن ہرگز نہیں بلکہ ہمت سے کام لیا جائے تو یہ عمل اتنا ہی آسان ہے جتنا کسی عزیز سے یہ سوچے بغیر کہ وہ اسے مداخلت پر ہی محمول کرے گا، یہ کہہ دیناکہ کپڑے ڈھنگ سے آئرن کر کے پہنو۔ در اصل تعلق کا یہ اظہار دوسرے کی پرسنالٹی بہتر بنانے کا ایک ایسا جذبہ ہے جس کی کسی بھی مخلوط اور مربوط سماج کو ہمیشہ ضرورت رہے گی۔
اس حقیقت سے ہم دونوں میں سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ موجودہ خرابیاں آج کی پیداوار نہیں۔ یہ چیزیں ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی عام ضرورت کی تکمیل سے زیادہ ہمارے رہنمایان اگر اِن ضرورتوں کا سیاسی اور اقتصادی کاروبار کرنے کو بدستور اہمیت دیتے چلے آ رہے ہیں تو اس کی ذمہ دار صرف موجودہ یا اس سے عین پہلے والی نسل نہیں۔ یہ چیزیںواقعی ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ تو کیا دہائیاں تباہ و برباد کرنے کے بعد بھی ہم ابھی یہ سوچنے کے متحمل نہیں ہوئے کہ اس ورثے کا ہم میں سے کسی کے عقیدے سے کسی طور تعلق نہیں، جسے ہم بلا وجہ سینے سے چمٹائے بیٹھے ہیں۔اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے مالا مال موجودہ عہد میں ہم علم سے اتنا تو استفادہ کرسکتے ہیںکہ بنیادی ضرورتوں کا وہ کاروبار بند کردیںجس کیلئے محرومیاں آج بھی خام مال کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت میں الجھے فرقوں میں دو قسم کے نام نہاد ذمہ دار معاملات کرنے کے نام پر حالات کو اور دگرگوں بنا دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر خرابی کیلئے نشانہ بند طریقے سے دوسرے فرقے کے انتہاپسندوں کو ذمہ دار گردانتے ہیں اور دوسرے وہ ہوتے ہیں جو اپنے ہی فرقے کورات دن برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔۔۔ کہ بس جو بویا تھا وہ کاٹو۔ یہ دونوں رویے انتہائی غیراعتدال پسندانہ ہیں اور خطرناک ماحول میںاس طرح کے رویے مزید تباہی و بربادی کا سامان کرتے ہیں۔ عصری منظر نامے میں اس رویے کو اظہار کے اتنے زیادہ وسائل مل گئے ہیں کہ معاملات سنبھالے نہیں سنبھل پا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا سے فیضیاب کم اور زیادہ آلودہ ماحول میں چوبیسوں گھنٹے ایک دوسرے کو کوسنے اورماضی کی قبریں کھودنے والے دونوں فرقوں کے سامعین اور ناظرین کا کان پکانے اور دماغ خراب کرنے میں لگے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اب یہ کون سمجھائے کہ فطرت نے قلم کار اور مقرر بننے کی صلاحیت جذبات کی بے ہنگم ترجمانی اور بے تکان بولنے کیلئے نہیں دی ہے۔ فطرت نے انسانوں کو جانوروں سے مختلف شعور بخشا ہے۔اس فرق کو سمجھنے کے بعد ہی انسان جسمانی طاقت سے مقابلہ کیے بغیر خطرناک سے خطرناک جانوروں کو اپنے بس میں کر لینے کا متحمل بن سکا ہے۔ یہ کام جس ذہنی طاقت سے کیا جاتا ہے، اس کے بھی الگ الگ مدارج ہیں۔ جو لوگ ذہنی طاقت کم استعمال کرتے ہیں وہ شیر کو پنجرے میں بند کرنے تک پر اکتفا کرتے ہیں یا پھر کرنٹ والی چھڑی کا سہارا لے کر سرکس میں شیروں کو اپنے اشارے پر نچاتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ ذہن اور دل کی ہم آہنگی کو بروئے کار لاتے ہیں تو وہ شیر کا پنجرے کے بغیر بھی سامنا کرلیتے ہیں۔گویا تعلق کو خوشگوار بنانے میں ذہن اور دل دونوں کی انتہائی مثبت ہم آہنگی ناگزیر ہے۔
بر صغیر میںاِس وقت حالات یہ ہیں کہ مذہب کو ماننا اور نہ ماننا دونوں بظاہر خطر ناک عمل بن کر رہ گیا ہے۔مذہب کو ماننے اور نہ ماننے والوں کے ایک حلقے نے بالواسطہ باہمی اشتراک سے مذہب کو جان کا جھاڑ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف سابق مذہبی عناصر ہیں جو مذہب ترک کر کے بھی اس سے بے تعلق نہیں ہوئے۔ دن رات کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف مذہب کی وکالت کرنے والے کچھ لوگ نتائج کی پروا کیے بغیر بس کیس جیتنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ظلم کے خلاف مزاحمت ضروری ہے لیکن زندگی کا مقدمہ نہ تو وحشیانہ طور پر لڑ کر جیتا جا سکتا ہے نہ دوسرے کی ہر دلیل پر جوابی بحث کر کے کوئی خوشگوار نتیجہ سامنے لایا جا سکتا ہے۔ اس مقدمے کو جیتنے کی واحد صورت یہ ہے کہ متحرک اختلاف کو جامد اتفاق پر ترجیح دی جائے تاکہ خیالات کا تصادم نفرت کی راہ ہموار کرکے جسمانی ٹکراؤ تک نہ بڑھے۔بہ الفاظِ دیگر زندگی کا مقدمہ صرف محبت سے فیصل کیا جا سکتا ہے جو ہار جیت دونوں سے یکساں لطف کا موقع فراہم کرتی ہے۔انسان کو جنگ اور بحث کی اِسی دو درجاتی وحشت سے بچانے کے لیے خُدائے زماں نے ادیان کے نسخے اتارے تھے۔ افسوس کچھ ہی اقوام اِن نسخوں سے علمی استفادہ کر سکیں۔ایک بڑے حلقے میں ان نسخوں سے بھی جنگ اور بحث کی تحریک حاصل کرلی گئی۔آخر میں ایک بار پھر یہ دہراتے ہوئے کہ مخلوط آبادی کو یک رنگ نہیں بنایا جاسکتا، یک رنگی کے مخالفین کو یہ سمجھانا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ مخلوط آبادی کی رنگارنگی پر جارحانہ اصرار بھی کسی خوشگوار نتیجے کا حامل نہیں ہوسکتا۔ علم اور عقیدے کی تکرار عام انسانوں کو کبھی چین سے جینے نہیںدے گی۔ البتہ دونوں طرف کے مفاد پرست عناصر اپنا کاروبار چمکاتے رہیں گے، جیسا کہ سر دست دیکھا جارہا ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS