زین شمسی: آوازیں دھیمی پڑنے لگی ہیں

0

زین شمسی

کل لوکل ٹرین میں تھا۔ لوکل ٹرین مطلب لوکل لوگ ، عام آدمی ، متوسط طبقہ اور غریب و بے بس لوگ بھی۔ بھیڑ تو ہوتی ہی ہے ساتھ میں گھاس کا بنڈل ، ٹین کا بکس ، ڈھیر سارے میلے کچیلے بچے اور زندگی گزارنے کی جدوجہد میں مشقت کرنے والے تجربے ساتھ میں وسائل و مسائل سے بھر پور مباحثے۔ اسٹیشن در اسٹیشن ٹی ٹی ای کے چھاپے اور ٹکٹ کے باوجود غیرقانونی وصولی۔ جو اس عتاب سے کسی طرح بچ گیا اس کے چہرے پر شادمانی اور زبان پر لن ترانی۔ بے حد لیٹ چلنے والی گاڑیوں میں بھی جب مسافران بلٹ ٹرین کا ذکر کرے تو سمجھ لینا چاہئے کہ امیدیں برقرار ہیں اور مایوسی کے در بند نہیں ہوئے۔ یکایک کسی کے موبائل میں انجنا اوم کشیپ گلہ پھاڑ کر چیخنے لگتی ہے۔ چین کو منہ توڑ جواب دے گا بھارت۔ نہ جانے کب کی ویڈیو تھی۔ مسافروں میں سے کسی نے چلا کر کہا ، بند کرو اسے۔ میں فوراً متوجہ ہوا کہ یہ کس نے جرأت کر لی انجنا اوم کشیپ کی آواز کو دبانے کی۔ آجکل اگر کوئی کھل کر بول پارہا ہے تو یہی چینل کے دانشوران ہیں اور ان کی آوازیں اور پیغامات کے بھارت کے لوگ دیوانے ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ نہ رہیں تو پتہ ہی نہ چلے کہ بھارت سرکار کیا کر رہی ہے۔ تعجب اس بات کا ہوا کہ لوکل ٹرین میں میڈیا کی آواز دبائی گئی۔ اس جستجو میں تھا کہ جس نے نیوز چلائی تھی وہ ردعمل میں کچھ کہے گا پھر جس نے آواز دبائی وہ کچھ کہے گا تب کچھ عقدہ کھلے گا، لیکن یہ کہہ کر کے غلطی سے ویڈیو کھل گیا یہ ایپی سوڈ ختم ہوگیا۔
گزشتہ ہفتہ سمپورن کرانتی سے دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ راجدھانی کی رفتار سے میل کھاتی ہوئی یہ ٹرین پٹنہ سے اسی وقت کھلتی ہے جس وقت راجدھانی تیجس۔ اس میں ٹکٹ ملنا بہت دشوار ہے کیونکہ اس میں راجدھانی سے بہت کم قیمت پر دہلی پہنچا جا سکتا ہے۔ ریزرویشن پر بیٹھا ہی تھا کہ دو لوگ آ کر میری سیٹ پر بغیر کسی اجازت کے آرام سے بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی سیٹ کہاں ہے؟ کہنے لگے ٹی ٹی ای سے بات ہوچکی ہے۔ میں نے کہا میری تو نہیں ہوئی کہ آپ لوگوں کو اپنی سیٹ پر بٹھا کر لے جائوں۔ انہوں نے کہا اس نے ہمیں سیٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بس تھوڑی دیر کے لئے آپ کو پریشانی ہوگی۔ ایک گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ٹی ٹی ای کا چہرہ مبارک سامنے نہیں آیا۔ اس گھنٹے میں اسی طرح کے غیر ریزرویشن مسافران بوگی میں نہ صرف گھستے رہے بلکہ آرام سے کسی نہ کسی کو بے آرام کرتے رہے۔ میں نے دوسری بوگیوں میں جائزہ لیا تو وہاں بھی یہی صورت حال تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس ٹرین میں ٹی ٹی ای کی کمائی دوسری ٹرینوں سے بہت زیادہ ہے۔ تبھی ایک مسافر جو اس صورتحال سے بے حد پریشان ہوچکا تھا زور سے چلایا کہ بلٹ ٹرین بھی آجائے گی تو یہی حال ہوگا۔ یہاں کے لوگ اور یہاں کا سسٹم سدھرنے والا نہیں ہے۔
گویا ٹرین کے مسافروں کو بلٹ ٹرین کا شدت سے انتظار ہے اور اس میں موجود رہنے والے ٹی ٹی ای پر بھی یقین ہے کہ وہاں بھی وہ کمائی کر لیں گے۔ جگاڑ کے معاملے میں دنیا میں سرفہرست رہنے والے ملک کے عوام پہلے سے ہی تمام جگاڑ کا انتظام کئے بیٹھے ہیں۔ باعث امن یہ ہے کہ ٹرین کا ماحول اب پرامن ہوچکا ہے ہاں کبھی کبھی کوئی اندھ بھگت سیاسی لطیفے سنا کر ٹرین کی فضا کو گل گلزار بنا دیتا ہے۔
ملک کے حالات کا اصلی جائزہ ٹرین کے ڈبے میں بیٹھ کر ہی لیا جاتا ہے۔ وہاں مختلف طرح کے لوگ اپنا اپنا بیانیہ پیش کرتے ہیں جس کا تجزیہ کر کے ہی ملک کی صورتحال کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ مگر انجنا اوم کشیپ، سدھیر چودھری اور دیگر نام نہاد صحافیوں کی جاہلیت اور نیت سے آہستہ آہستہ تمام لوگ واقف ہوچلے ہیں۔ یوں کہیے کہ پک گئے ہیں۔ یہ میڈیا کے لوگ اپنے آقا کے اتنے فرماں بردار ہوچکے ہیں کہ انہیں اب اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کی معتبریت ان ہی لوگوں کے درمیان ختم ہو چکی ہے۔ ہر شام لڑائی جھگڑے کا ماحول بنا کر یہ لوگ آخر کس طرح کا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں یہ وہ خود نہیں جانتے۔ گودی میڈیا کی شروعات میں لوگوں کو گلیمر نظر آیا۔ یکایک ٹی وی کے سنجیدہ اینکرس اسٹوڈیوز میں ڈانس کرتے نظر آئے۔ دانشواران حیرت زدہ رہ گئے اور عام عوام اس ادا پر فدا ہو گئے۔ ٹرینوں میں جاہلیت کا درس سنائی دینے لگا۔ کابینی وزرا ہسٹری کے بیسٹ ٹیچر بن گئے اور متوسط اور ادنیٰ طبقے کو فری کوچنگ ملنے لگی۔ سدھیر چودھری خان سر بن گئے انجنا ماسٹرنی بن گئی۔ اسکول اور کالج کے طلبا نے کتابیں بند کر دیں اور ٹیلی ویژن کوچنگ کی شروعات ہوئی۔ سیاست دانوں کو یہ سودا سودمند لگا اوراس میں پیسہ انویسٹ کیا جانے لگا۔ عوام ہی نہیں کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی سدھیر چودھری کے گیان پر مہر ثبت کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سماج میں جہالت نے قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ لیکن اب جب اس تماشہ کے 8سال ہو گئے۔ چین اور پاکستان کا وجود ختم نہیں ہوا۔ امریکہ اور انگلینڈ کی معاشی حالت نہیں بگڑی۔ بھارت کو بابا رام دیو جیسے گرو تو ملے مگر دنیا کو بھارت جیسا وشو گرو نہیں مل سکا تب ٹیوشن لینے والوں کو اپنے ٹیوٹر پر شک ہونے لگا اور اب وہ انجنا اور سدھیر جیسے فیک دانشوروں کی آواز بند کرانے لگے۔
جس طرح ٹرین چلتی ہے اور ٹی ٹی ای وصولی کرتا ہے اور مسافر جگاڑ لگاتے ہیں ویسے ہی بھارت چل رہا ہے۔ سیاست داں اور صنعت کار وصولی کر رہے ہیں اور عوام اپنا جگاڑ سیٹ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS