مردہ کا کفن کھینچنے کی مذموم کوشش

0

یہ سیاسی منافقت ہے یا پھر حقیقت بیانی اس سے قطع نظر اب یہ بات پارلیمنٹ کے ریکارڈ پر بھی لائی جاچکی ہے کہ 2014 کے بعد ہندوستان کے حالات میں ہر ابتری کے ذمہ دار جواہر لعل نہرو ہیں۔ اس بیانیہ کواتنے رنگ میں پیش کیاجارہاہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم ایک مخصوص طبقہ کے نزدیک ’ویلن ‘ سمجھے جارہے ہیں۔ کل ہی وزیرداخلہ امت شاہ ایوان میں اپنی تقریر کے دوران جہاں کانگریس پر حملہ آور ہوئے وہیں جواہر لعل نہرو کے خلاف الزامات کا ایسا طومار باندھا کہ الاماں الحفیظ۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے چین سے محبت کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کی رکنیت تک قربان کر ڈالی۔ 1962میں کانگریس کی حکومت کے دوران ہی چین نے ہماری ہزاروں ہیکٹئر زمین ہتھیا لی تھی۔آج سرحدوں کے جتنے تنازعات ہیں ان سب کے ذمہ دار جواہر لعل نہرو ہی ہیں ۔
معاملہ تھااروناچل کے توانگ میں ہندوستان اور چین کے فوجیوں کے مابین ہوئی جھڑپ کا ۔اس جھڑپ میں دونوں ہی ملکوں کے فوجی زخمی ہوئے تھے۔توانگ کا یہ خطہ اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے ہندوستان کیلئے انتہائی اہم ہے لیکن چین کی نگاہیں اس پر جمی رہتی ہیں۔ پوری ریاست اروناچل پردیش پر اپنے حقوق کا دعویٰ کرتے ہوئے چین یہاں مداخلت کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بظاہر ایسا ہی کچھ 9 دسمبر کو بھی ہوا۔ جس کے بارے میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ چینی فوجیوں نے سرحد پر حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔پیپلز لبریشن آرمی نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو عبور کیااور توانگ سیکٹر میں موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستانی فوج نے سختی کے ساتھ چینی فوج کی اس کوشش کا مقابلہ کیا اور بہادری سے پی ایل اے کو ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے سے روکا اور انہیں اپنی چوکیوں پر واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ اس جھڑپ میں دونوں طرف کے چند فوجی جوان زخمی ضرور ہوئے لیکن ہمارا کوئی فوجی جاں بحق ہوا اورنہ کوئی شدید زخمی ہی ہوا۔وزیردفاع کے جواب سے اپوزیشن مطمئن نہیں ہوئی۔ کانگریس اوردوسری پارٹیوں کا مطالبہ تھا کہ اس معاملہ میں حکومت وضاحت کے ساتھ تفصیلی بیان دے ۔ اپوزیشن نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت واضح کرے کہ ہندوستان کے کتنے علاقوں پر چین کا قبضہ ہے۔ چونکہ لداخ کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب ان علاقوں میں ان کا داخلہ ممنوع ہے جہاں وہ پہلے اپنی بکریاں چراتے تھے ۔ حکومت کو پارلیمنٹ میں اس کا جواب دینا چاہئے ۔
اپوزیشن کا مطالبہ ایسا کوئی بے جا بھی نہیں تھا کیوںکہ چین کی توسیع پسندانہ پالیسی اور ہندوستان کے علاقوں پر قبضہ کی کوشش کے سلسلے میں مودی حکومت کا غیرواضح رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اروناچل پردیش کے توانگ میں چینی فوجیوں کے ساتھ 9دسمبر کو ہونے والی جھڑپ کی اطلاع حکومت نے ایوان کو13دسمبر کو دی۔ یہ گریز اور ٹال مٹول کا رویہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا اس سے قبل 2020میں گلوان میں چینی فوجیوں کے حملے میں20ہندوستانی سپاہیوں کے مارے جانے پر بھی وزیراعظم چین کے خلاف دو ٹوک اور واضح بیان دینے کی بجائے چین ساختہ ایپس پر پابندی کو ہی کافی سمجھتے رہے تھے۔چین کے سلسلے میں اس طرح کے کئی دوسرے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں۔اس پر بات کرنے کی بجائے وزیر داخلہ امت شاہ نے جواہر لعل نہرو پر انگشت نمائی شروع کردی۔ ویسے بھی بی جے پی کا یہی رویہ رہاہے ۔خاص کر2014کے بعد سے تو ہر جواب دہی سے بچنے کیلئے جواہر لعل نہرو کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے اوراس بار بھی یہی کیا گیا۔ جہاں تک سلامتی کونسل میں ہندوستان کی مستقل رکنیت کا معاملہ ہے جواہر لعل نہرو نے اسی پارلیمنٹ میں1955میں ہی اس کی وضاحت کردی تھی۔ انہوں نے باقاعدہ بیان دیاتھا کہ سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کیلئے غیر رسمی یا رسمی طور پرکوئی تجویز موصول نہیں ہوئی تھی۔ نہرو جی کا یہ بیان آج بھی پارلیمنٹ کے ریکارڈ میںدرج ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی اوراس کے لیڈر اسے غلط قرار دیتے ہوئے نہرو جی کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب 1945میں چین کو اقوام متحدہ میں ’ فل ممبر‘ کا درجہ حاصل ہوااس وقت ہندوستان آزاد بھی نہیں ہواتھا۔
بی جے پی کے لیڈر اور وزیردراصل ایک ہی جھوٹ کو بار بار کہہ کر اسے سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ کھلی ہوئی سیاسی منافقت اور اپناننگ چھپانے کیلئے مردہ کا کفن کھینچنے جیسی مذموم کوشش ہے ۔چین کی توسیع پسندانہ پالیسی کے جواب میں آنجہانی نہرو جی پر الزام تراشی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS