کیا جارید کوشنر اس صدی کا بلفورڈ بنے گا؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جہاں ایک طرف دوبارہ کرسی صدارت پر متمکن ہونے کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں وہیں دوسری طرف ان کے داماد جارید کوشنر نے مشرق وسطیٰ کی تصویر کشی اپنے خاص فکری زاویہ سے کرنا شروع کر دیا ہے۔ کوشنر میڈیا کی سرخیوں میں پھر سے نمایاں بن کر ابھرا ہے اور اس کی بڑی وجہ ہاورڈ یونیورسٹی میں اس کا وہ بیان ہے جس میں اس نے اسرائیل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غزہ کی آبادی کا صفایا کرے اور بچے کھچے فلسطینیوں کو نقب یا سیناء کے علاقوں کی طرف ڈھکیل کر ہٹا دے تاکہ غزہ کے ساحلی حصوں کا استعمال انوسٹمنٹ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کیا جا سکے۔ کوشنر کے اس بیان سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ کو 2024 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی نصیب ہوتی ہے تو غزہ اور فلسطین کے تئیں امریکی پالیسی کیا ہوگی۔ جارید کوشنر ایک یہودی اور صہیونی ہے اور اسی لئے یہ بالکل تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس کے پیش نظر سب سے قبل یہودی و صہیونی مفادات کا تحفظ رہتا ہے۔ جارید کوشنر کی ذہنی و فکری کیفیت اس کی خاص پرورش و پرداخت کے بالکل عین مطابق ہے۔ وہ صہیونی ہونے کے ساتھ ساتھ عقارات اور ریئل اسٹیٹ کے امور میں تربیت یافتہ بھی ہے۔ اس لئے اس کو فلسطین اور غزہ میں آباد ایک غیور اور بہادر قوم نظر نہیں آتی ہے بلکہ صرف وہاں کی زمین اور اس کے ساحلی علاقوں کی مادی اہمیت ہی اس کو سمجھ میں آتی ہے۔ وہ عرب حکمرانوں کی طرح اپنے دین و مذہب سے عملی طور پر دور اور فکری طور پر شکست خوردہ بھی نہیں ہے اس لئے غزہ کے ساحلی علاقوں کے مادی استحصال کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے تحفظ کا حل بھی ڈھونڈ رہا ہے۔اگرچہ اس وقت جارید کوشنر کے پاس کوئی سیاسی اتھارٹی نہیں ہے،لیکن ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں نہایت اہم ہوجائے گا جیسا کہ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران تھا اور اس کا سیدھا منفی اثر مشرق وسطیٰ اور خاص طور سے فلسطین کے حالات پر پڑے گا جو پہلے ہی سے سنگین انسانی مسائل سے دوچار ہے۔ کوشنر کا یہ بیان بے وجہ نہیں آیا ہے۔ اس کی پشت پر ایک خاص سامراجی فکر کار فرما ہے جس کی کیفیت اور نوعیت میں آج تک کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ اس کے اس بیان نے ایک صدی قبل کے اس دور کی یاد تازہ کر دی ہے جب برطانوی سامراج میں وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے والا آرتھر بلفور نے کسی بھی استحقاق کے بغیر فلسطینیوں کی زمین صہیونیوں کو تحفہ میں پیش کر دی تھی۔ اس زمین کو صہیونیوں کے حوالے کرتے وقت برطانوی سامراج کے اس نمائندہ نے ایک لمحہ کے لئے بھی نہ تو وہاں کے اصلی باشندوں کے مسائل کے بارے میں سوچا اور نہ ہی ان زمینوں کے مالکان کی مشکلات میں کوئی دلچسپی دکھائی۔ جب کہ نہ تو زمین تحفہ میں دینے والے برطانوی سامراج کو یہ حق حاصل تھا اور نہ ہی اس زمین کو ہتھیانے والے صہیونی کسی طرح سے اس کے مستحق تھے۔ اب چونکہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد سے امریکہ ہی مغرب کی سامراجی فکر کی قیادت کر رہا ہے اس لئے جارید کوشنر اس فکر کی ترویج اور ٹرمپ کی متوقع فتح کی صورت میں اس کے عملی نفاذ کا اشارہ صہیونی لابی کو دے رہا ہے۔ یہ اشارہ امریکہ میں موجود صہیونی لابی کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے لئے بھی ہے۔ ٹرمپ در اصل اپنے داماد کے ذریعہ نتن یاہو کو یہ بتا رہا ہے کہ وہ صہیونوں کے لئے جو بائیڈن سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوگا اور وہ اسرائیل کے لئے اس سے کہیں بڑھ کر کام کرے گا جتنا کہ بائیڈن نے اب تک اپنے عہد صدارت میں کیا ہے۔ ٹرمپ در اصل صہیونی لابی کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے اعلانیہ طور پر کہہ رہا ہے کہ وہ بائیڈن سے زیادہ بڑا صہیونی ہے۔ اس مقصد کے لئے ٹرمپ وہ سب کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ضروری ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ ہارورڈ میں دیئے گئے اپنے اس بیان سے قبل کوشنر نے اپنی بیوی ایوانکا ٹرمپ کے ساتھ اسرائیل کی زیارت کی تھی اور وہاں جا کر اس نے 7 اکتوبر کے واقعہ پر نیتن یاہو کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا اور جن کے اعزہ و اقارب حماس کی قید میں ہیں ان سے بھی مل کر اپنے غم و رنج کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے شہر قدس جاکر دیوار براق کی زیارت کی اور وہاں تلمودی شعائر و عبادات کی بجا آوری کی۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام حرکات و سکنات بے معنی نہیں تھے بلکہ ٹرمپ اپنی بیٹی اور داماد کے ذریعہ یہ پیغام بھیج رہے تھے کہ وہ اسرائیل کو ہر ممکن تعاون پیش کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس بیان سے ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت اور قتل عام کے پیچھے نیتن یاہو کی کونسی فکر کام کر رہی ہے اور عالمی عدالت سے لے کر سیکورٹی کونسل کے فیصلوں اور قرار دادوں کے باوجود جنگ کیوں نہیں روکی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو کی مسلسل کوشش یہ ہو رہی ہے کہ وہ اس جنگ کو طویل مدت تک دراز کرے اور اس کو امریکی انتخابات کے قریب تک لے جائے تاکہ ٹرمپ کی جیت کے لئے صہیونی لابی کی حمایت کو یقینی بنایا جا سکے۔ حالانکہ بائیڈن نے صہیونی ریاست کے تعاون میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے لیکن نیتن یاہو کی نظر میں اتنا کافی نہیں ہے۔ جارید کوشنر کا بیان یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کی فکر اسرائیلی وزیر دفاع گالانٹ سے بالکل میل کھاتی ہے۔ جس طرح گالانٹ کی نظر میں فلسطینیوں کی حیثیت انسان نہیں بلکہ جانوروں کی سی ہے ویسے ہی جارید کوشنر سوچتا ہے اور اسی لئے اس نے اپنی تقریر میں فلسطینیوں کے صفایا کرنے کی بات کہی تھی۔ کوشنر بھی گالانٹ کی طرح اہل فلسطین کو جانوروں کا ایک ایسا ریوڑ سمجھتا ہے جس کو ہانک کر نقب یا سیناء کے علاقوں میں دھکیل کر لے جایا جا سکتا ہے۔ یہی فکر استعمار کی ہمیشہ رہی ہے۔ سامراجی افکار کے حامل لوگ چوروں اور رہزنوں سے بڑی مماثلت رکھتے ہیں۔ کوشنر بھی اسی فکر کا حامل ہے اور زمین کی خرید و فروخت کرنے والے ایک دلال کی حیثیت سے غزہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس کی نظر صرف اس منافع پر ٹکی ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے غزہ کے ساحلی علاقوں کو سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے سے ہو سکتا ہے۔ یہ علاقہ کوشنر کے مطابق اسی لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی زبردست قیمت ہے۔ برطانیہ نے جب فلسطین کو صہیونیوں کے حوالہ کیا تھا تب اس کی بھی یہی منطق تھی۔ برطانیہ نے بھی اسی دعویٰ کے تحت صہیونیوں کو یہ زمین دی تھی کہ فلسطین ایک خالی قطعہ ارضی ہے اس لئے یہودیوں کو دے دی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنا ملک بنا سکیں۔ یہ کوشنر بھی پوری بے حیائی اور ڈھٹائی سے امریکی اہل سیاست کی اس فکر کی نمائندگی کر رہا ہے جس کے تحت غزہ کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ حالانکہ غزہ کی تاریخ اتنی قدیم ہے کہ امریکہ اپنے رحم مادر میں بھی اس وقت تک نہیں پہنچا تھا۔ غزہ کی تاریخ تین ہزار قبل مسیح تک جاتی ہے۔ خود مسجد عمر جس کو ملعون صہیونی ریاست نے شہید کر دیا اس کی عمر 1400 سال سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مسجد عمر کی یہ طویل تاریخ امریکہ کی عمر سے 6 گنا اور صہیونی وجود سے 18گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ عیسائیوں کا گرجا گھر پرفیریوس (Church of Saint Porphyrius) تو سولہ سو سال قدیم ہے اور غزہ میں واقع ہے۔ ان تمام تاریخوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جارید کوشنر کہتا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا دہشت گردی کو کامیاب بنانے جیسا ہوگا۔ یہاں بھی کوشنر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی مماثلت کرتا نظر آتا ہے کیونکہ وہ بھی فلسطینی ریاست کے قیام کو اسی نظر سے دیکھتا ہے۔ تو آخر وہاں موجود فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اس کا حل کوشنر کے نزدیک یہ ہے کہ اہل غزہ کو اس طرح منتقل کر دیا جائے کہ وہ دوبارہ وہاں واپس نہ آ سکیں۔ ایک حل یہ بھی پیش کرتا ہے کہ ان کو یا تو پڑوس کے ممالک قبول کر لیں یا پھر فلسطینیوں کا استقبال یورپی ممالک اپنی زمینوں پر کریں۔ اسرائیلی میڈیا بھی ٹرمپ کو بڑی اچھی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ 2021 میں اسرائیلی اخبار ’معاریف‘کے تجزیہ کے مطابق ٹرمپ سے زیادہ بڑا حامی اسرائیل کا کوئی نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی 70 سالہ تاریخ میں ٹرمپ جیسا کوئی ایسا صدر نہیں آیا جس نے اسرائیل کے لئے اتنا کچھ کیا ہو جتنا کہ ٹرمپ نے کیا ہے۔ ٹرمپ ہی کے دور صدارت میں ویسٹ بینک، گولان کی چوٹی اور قدس پر اسرائیلی سیادت کو امریکہ نے منظوری دی، اپنے عرب حلیفوں کی پرواہ کئے بغیر ٹرمپ نے امریکی سفارت کو قدس منتقل کیا، اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے UNRWA کی فنڈنگ میں کمی کی اور اقوام متحدہ کے اندر اسرائیل کا ہر طرح سے دفاع کیا۔ اسرائیلی نقطہ نظر سے ٹرمپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس کے عہد میں ہی عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کی استواری کا دور شروع ہوا اور مسئلہ فلسطین کو ختم کرکے صہیونی ریاست کو تحفظ فراہم کرانے کا انتظام کرایا گیا۔ اگر ٹرمپ کو بائیڈن کے ہاتھوں شکست نہیں ملی ہوتی تو اس ’جدید مشرق وسطیٰ‘ کا خواب مکمل ہو چکا ہوتا جس کی تمنا اسرائیل کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس نئے مشرق وسطیٰ میں فلسطین نام کی کوئی شے نہیں ہوتی اور اسرائیل کو اس کے پڑوسی عرب ملکوں کے ساتھ پورے طور پر اس طرح ضم کر دیا جاتا جس کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ اب ایک بار پھر ٹرمپ کی فتح کے امکانات روشن کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ ان خوابوں کو پورا کیا جا سکے جو ادھورے رہ گئے تھے۔ وہ ڈیل آف دی سنچری پایۂ تکمیل کو پہنچے جو وہائٹ ہاؤس میں ’صدر‘ ٹرمپ کے دستخط کے انتظار میں ہے۔ لیکن کیا فلسطینی مزاحمت کار کبھی اس کو گوارہ کریں گے؟ کیا عرب ممالک کی رضامندی کے باوجود ٹرمپ کا منصوبہ کامیاب ہوگا؟ حالات تو یہی اشارے دے رہے ہیں کہ فلسطین کے مزاحمت کار کبھی اس کو گوارہ نہیں کریں گے اور آخری دم تک اپنے جائز حقوق کی حفاظت کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کے سرخیل حماس کا یہ نعرہ بن چکا ہے کہ جہاد کی اس راہ میں یا تو شہادت قبول کریں گے یا پھر مکمل طور پر اپنا مقصدِ آزادی حاصل کریں گے۔ دوسرا کوئی آپشن اہل فلسطین کو قبول نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جارید کوشنر کے لئے اکیسویں صدی کا بلفورڈ بننا آسان نہیں ہوگا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS