بھارتیہ نیائے سنہتا لانے کی ضرورت کیوں؟

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہندوستانی تعزیری قوانین بہ اعتبار اہمیت تین Acts پرمشتمل ہیں۔(الف) مجموعہ تعزیرات ہند،1860 (ب) مجموعہ ضابطہ فوجداری،1973 اور (ج)قانون شہادت، 1872۔ اس کے علاوہ تعزیری قوانین کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی مکمل تفصیل درج کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔ان تینوں قوانین کی جگہ بالترتیب بھارتیہ نیائے سنہتا،بھارتیہ ناگرک سرکشک سنہتا اوربھارتیہ ساکشے ادھینیم لانے کے لیے بل پارلیمنٹ میں پیش کیے جا چکے ہیںاور ان کی مزید جانچ پڑتال کے لیے پارلیمانی پینل کو بھیجا جائے گا۔ اس کے بعد ہی ان مجوزہ قوانین کی مختلف دفعات کا تجزیہ کیا جا سکے گا۔ہم فی الحال بھارتیہ نیائے سنہتا کا مختصر جائزہ لے رہے ہیںاور وہ بھی چند اہم دفعات کی شمولیت کے حوالے سے۔
تعزیری قوانین میں مجموعہ تعزیرات ہند( جس کا مستند متن(مرکزی قوانین) ایکٹ 1973کی دفعہ2کے فقرہ (الف) کے تحت مستند متن کے طور پر منظور نیا نام مجموعہ تعزیرات بھارت ہے) کا نام سرفہرست آتا ہے چونکہ اس میں تمام اہم جرائم کی تفصیل اور ان کی سزا کی بابت دفعات شامل کی گئی ہیں۔
اگرچہ تعزیری قوانین میں اس مجموعے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کی بابت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں وہ سب کچھ شامل ہے جو تعزیری قانون میں شامل ہونا چاہیے۔ موتی لال شاہ والے معاملے(1930) آئی ایل آر55 بمبئی 89 میں بھی عدالت کا یہی موقف تھا۔ یہ قانون غیر منقسم ہندوستان میں1860میں منظور کیا گیا تھا اور دیگر قوانین کی طرح آزاد ہندوستان میں بھی اس قانون میں وقتاً فوقتاً بہت سی ترامیم کی گئی ہیں اور کچھ نئی دفعات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس قانون کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری ہندوستان کے پہلے لاء کمیشن کو،جو چارٹر ایکٹ،1833کے تحت قائم کیا گیا تھا، سونپی گئی تھی۔ اس کمیشن کے سربراہ لارڈ میکالے تھے،۔اس قانون کا مسودہ Law of England کو بنیاد بنا کر تیار کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں فرانسیسی پینل کوڈ اور Livingstone Code of Louisiana سے بھی مدد لی گئی تھی۔ اگرچہ اس مسودے کی تیاری میں کسی حد تک Napoleonic Code اور Edward Livingstone’s Louisiana Civil Codeکے نفس موضوع کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا اور ان میں شامل جرائم کی تفصیل پر بھی غور کیا گیا تھا پھر بھی مجموعہ تعزیرات بھارت کو کسی بھی بیرونی قانون کا نقش ثانی نہیں کہا جاسکتا۔اس کا مسودہ انتہائی محنت اور نہایت احتیاط کے ساتھ تیار کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کی مختلف دفعات کو جب جب عدالت کے روبرو چیلنج کیا گیا تو وہ انصاف کی کسوٹی پر پوری اتریں اور چند دفعات کے علاوہ جنہیں وقت، نظائر عدالت اور حالات کے مطابق بدلنا پڑا یااس میں نئی دفعات کو شامل کرنا پڑا،باقی دفعات تاہنوز اپنی اصل شکل میں موجود ہیں۔
تعزیرات ہند 1860میں وضع کی گئی تھی اور اس کے بعد سے اب تک تقریباً ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔اس لیے اکثر یہ آواز اٹھتی رہی ہے کہ 21ویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس مجموعے پرنظرثانی کی جائے۔ ویسے بھی انگریزوں نے یہ قانون اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنایا تھا۔ غالباًحکومت ہندنے بھی اسی بنیاد پراورinclusive growth و قومی ترقی کے مدنظر بھی اس مجموعے کی جگہ نئی سنہتا لانے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی کسی قانون میں جب اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی کرنا ہو تو نیا قانون لانا ہی بہتر متبادل ہوتاہے۔
اگر نیک نیتی سے کسی بھی قانون میں ترامیم کی جاتی ہیں یا کوئی نیا قانون لایا جاتا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔البتہ اگر قانون بدنیتی سے بنایا جاتا ہے اور وہ قانون فرد واحد یا کسی گروپ کے مفاد کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے یعنیpeople centricنہیں ہے تو اس کے عدالت کے ذریعہ کالعدم قرار دینے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
مجوزہ قانون356 دفعات پر مشتمل ہے جبکہ تعزیرات ہند میں 511 دفعات تھیں۔اس میں 175دفعات میں ترامیم کی گئی ہیں اور 22دفعات کو حذف کیا گیا ہے۔مجوزہ قانون کی کچھ خاص باتیں درج ذیل ہیں:
ہمارے ملک میں جہاں جمہوریت اپنی جڑیں نہایت مضبوطی کے ساتھ جما چکی ہے، اس لیے اب اس مجوزہ قانون میں بغاوت، سرکشی (sedition) کو حذف کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ دفعہ 150 شامل کی گئی ہے جس کی عبارت درج ذیل ہے:
بھارت کے اقتدار،اتحاد اور سالمیت کوخطرے میں ڈالنے والی کارروائیاں:-150’جو کوئی قصداً یا جان بوجھ کر بذریعہ الفاظ،خواہ کہے گئے یا تحریری، یا بذریعہ اشارات یا واضح اظہار یاالیکٹرونکی ترسیل یا مالی ذرائع کا استعمال کرکے یا دیگر طور پر علیحدگی یا مسلح بغاوت یا مخرب سرگرمیوں کے لیے جوش دلاتا ہے یا جوش دلانے کا اقدام کرتا ہے یاعلیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کے جذبات کو حوصلہ بخشتا ہے یا بھارت کے اقتدار یا اتحاد یا سالمیت کوخطرے میں ڈالتا ہے یا ایسی کسی کارروائی میں ملوث ہوتا ہے یا اس کا ارتکاب کرتا ہے، اسے سزائے عمرقید دی جائے گی یا سات سال تک کی سزائے قید دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
تعزیرات ہند میں سرکشی، بغاوت (Sedition) کی تعریف کی عبارت درج ذیل تھی:
سرکشی،بغاوت:-124 الف۔ جوکوئی بذریعہ الفاظ خواہ کہے گئے یا تحریری یا بذریعہ اشارات یا واضح اظہار یا دیگر طور پر بھارت میں قانوناً قائم کی گئی حکومت کے خلاف نفرت پھیلائے یا تحقیر کرے یا اس کا اقدام کرے یا بدخواہی کی ترغیب دے یا اس کا اقدام کرے، اسے سزائے عمر قید دی جائے گی جس کے ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے یا تین سال تک کی سزائے قید دی جائے گی جس کے ساتھ جرمانہ بھی ہوسکتا ہے یا سزائے جرمانہ دی جائے گی۔
سنہتا میں قتل عمد میں snatchingکو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔تعزیرات ہند کی طرح اجتماعی زنا بالجبر و دیگر جنسی جرائم اور بیشتر دیگر جرائم کو متن کے معمولی ہیر پھیر کے ساتھ اور سزاؤں میں کچھ کمی بیشی کرکے شامل کیا گیا ہے تا کہ یہ تعزیرات ہند کا نقش ثانی نہ لگے۔ پھر بھی اعتراض کرنے والے کہاں باز آتے ہیں۔وہ اسے نئی بوتل میں پرانی شراب کہہ رہے ہیں۔ ماب لنچنگ کو براہ راست سنہتا میں شامل نہیں کیا گیاہے لیکن دفعہ 101 میں یہ التزام ہے کہ اگر پانچ یا پانچ سے زیادہ لوگ باہم مل کر کسی شخص کا، اس کی نسل، ذات،کمیونٹی،جنس،جائے پیدائش، زبان، ذاتی عقیدے، مذہب(ایکٹ میں لفظ faithکا استعمال کیا گیا ہے) کی بنیاد پر یا کسی دیگر بنیاد پر قتل کرتے ہیں تو اس گروپ کے ہر شخص کو سزائے موت یا عمر قید یا کم از کم سات سال کی سزائے قید دی جائے گی۔ مقدمات کی کارروائی کی تمام تفاصیل کو ڈیجیٹائز کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔جنسی جرائم میں متاثرین کے بیانات کے لیے ویڈیوگرافی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
مجوزہ قانون کی خوبیوں و خامیوں کا صحیح اندازہ تو پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں با معنی بحث کے بعد ہی ہو سکے گا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS