’امکانات کی سرزمین‘ اتنی بے بس کیو ں؟

0

صبیح احمد

امریکہ کی دنیا کے لیے سب سے بڑی کشش تھی امکانات کا اس کا وعدہ۔ اس نے خود کو ایک ایسی کنواری سرزمین کے طور پر پیش کیا جہاں ماضی سے آزاد ہو کر نئے سرے سے ایک سماج کا قیام کیا جا سکتا ہے، خود کو پھر سے تلاش کیا جا سکتا ہے، خود کی تجدید کی جا سکتی ہے یعنی زندگی کو دوبارہ پھر سے شروع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک افسانہ ثابت ہو رہا ہے۔آج جو لوگ وہاں پہلے سے موجود ہیں جن کی زندگیاں اور زمینیں چھینی جا رہی ہیں، اس کی خبر لینے والا کوئی نہیں ہے۔ وہاں کا اب کچھ اور ہی منظر ہے۔ ایک ایسا ملک جو منفرد طور پر اپنے ماضی کے بے جان بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس لیے اپنے حال کے خطرے سے نمٹنے یا اپنا بہتر مستقبل بنانے سے قاصر ہے۔امکانات کی یہ سرزمین آج مفلوج ہے، یہاں تک کہ بظاہر ایک ایسی چھوٹی سی تبدیلی لانے کے بھی قابل نہیں ہے جو اس کے معصوم بچوں اور شہریو ں کی زندگیاں بچا سکتی ہے۔ اس کا ثبوت گزشتہ ہفتہ ایک بار پھر ٹیکساس شہر کے اوولڈے میں دیکھنے کو ملا جہاں ایک 18 سالہ لڑکا ایک ایلمنٹری اسکول میں داخل ہوا اور 8 سے 10 سالہ 19 بچوں اور ان کے 2 ٹیچروں کو قتل کر دیا۔
یہ کوئی تنہا معاملہ نہیں ہے۔ امریکہ میں فائرنگ کے واقعات میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہلاکت کی خبریں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے سب سے زیادہ بندوقیں اور پستول پائے جاتے ہیں۔ ذاتی اسلحہ کے حق میں سرگرم تنظیم ’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘ ایسی قانون سازی کی مخالفت کرتی رہی ہے جس میں اسلحہ پر کسی بھی قسم کی پابندیاں لگائی جائیں۔ اکثر امریکی شہری اسلحہ رکھنا اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حالیہ قتل عام کے 18 سالہ مجرم سلواڈور راموس کو ان ہتھیاروں کو حاصل کرنے کے لیے صرف ایک دکان میں جانا پڑا، اپنا آرڈر دیا، ادائیگی کی اور بس۔ اتنی آسانی سے ہتھیاروں کا حصول کسی بھی دوسرے ملک میں ناقابل فہم ہے لیکن امریکہ میں نہیں، جہاں بندوق رکھنا شہریوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور امریکی آئین میں دوسری ترمیم کے تحت اسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔ 15 دسمبر 1791 کو نو قائم شدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے بل آف رائٹس کی توثیق کی جو آئین میں پہلی 10 ترامیم ہیں اور اس کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی تصدیق کرتی ہیں۔ اس آئینی ترمیم کے تحت ہتھیار رکھنے کے حق کو آزادی رائے، پریس، مذہب اور اجتماع کی آزادی کے حقوق کے برابر بنا دیا گیا۔ اگر آزاد ریاست کی سلامتی کے لیے ایک منظم ملیشیا ضروری ہو تو عوام کے ہتھیار رکھنے اور برداشت کرنے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
امریکی آئین میں دوسری ترمیم آخر کیا ہے؟ جنگ آزادی (1775-83) میں برطانیہ کے خلاف فتح کا جس میں ملیشیا نے اہم کردار ادا کیا تھا، زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ملیشیا وہ مسلح گروہ تھے جو اپنی برادریوں، قصبوں، کالونیوں کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہوئے اور جب ملک نے 1776 میں آزادی کا اعلان کیا اور بالآخر ریاستیں وجود میں آئیں، اس وقت عام ہتھیار مسکٹ تھی جو پیادہ فوج کے نوادرات میں شامل ہے اور اسے انیسویں صدی تک استعمال کیا جاتا تھا اور یہ تقریباً 100 میٹر کے فاصلے تک بڑی مؤثر تھی اور اسے تقریباً ایک منٹ میں 3 بار چلایا جا سکتا تھا۔ اس وقت جب امریکی ثقافتی شناخت قائم ہو رہی تھی، بہت سے لوگ باقاعدہ فوجیوں کو اقتدار کے آلہ کار سمجھتے تھے جن کو شہریوں پر ظلم کرنے کی صلاحیت حاصل تھی اور ان کا خیال تھا کہ اپنے دفاع کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہتھیار لے کر چلیں اور اگر ضروری ہو تو ملیشیا یا مسلح گروہ بنائیں یا ان میں شامل ہو جائیں۔ درحقیقت وفاقیت کے مخالفین (ایک مضبوط مرکزی حکومت کے مخالفین) نے ایک پیشہ ور فوج کے وجود کو مسترد کر دیاتھا۔ اس طرح 1788 میں آئین کی باضابطہ توثیق کے بعد جیمس میڈیسن نے جو امریکہ کے بانیوں میں شامل تھے اور بعد میں امریکہ کے صدر بنے، اس کی باضابطہ توثیق بھی کر دی۔ میڈیسن نے ریاستوں میں ملیشیا کو بااختیار بنانے کے مقصد سے دوسری ترمیم کا مسودہ تیار کیا۔ اگرچہ دوسری ترمیم نے طاقت کے استعمال کے ذریعہ قانون کے نفاذ کی حکومت کی اہلیت کو محدود نہیں کیا لیکن اس نے ان شہریوں کو غیر مسلح کرنے کا اختیار ضرور چھین لیا جو اپنا دفاع کرنا چاہتے تھے۔
امریکہ میں برسوں سے شہریوں کے اسلحہ رکھنے کے حق کے حامیوں نے دوسری ترمیم کو اپنے حقوق کی ضمانت کے طور پر دیکھا ہے۔ اس مؤقف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دوسری ترمیم کا ایک حصہ ’عوام کے ہتھیار رکھنے اور ہتھیار بند ہو کر چلنے کا حق‘ انفرادی آئینی حق کا مظہر ہے اور کسی بھی قدغن یا پابندی کا قانون یا ضابطہ آئین کے منافی ہو گا، تاہم بندوق کی ملکیت کے مخالفین دوسری ترمیم کے متن کے پہلے حصے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں جس میں ’ایک منظم ملیشیا‘ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس دوسرے مؤقف کے نظریہ سازوں کا استدلال ہے کہ 1791 میں آئین سازوں کا مقصد شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا انفرادی حق دینا نہیں تھا بلکہ بیرونی جارحیت کی صورت میں دفاع کا اجتماعی حق قائم کرنا تھا۔ اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو آتشیں اسلحہ لینے اور رکھنے کا انفرادی حق نہیں ہونا چاہیے اور وفاقی، ریاستی اور مقامی حکام کو غیر آئینی حیثیت میں آئے بغیر اس قسم کے ہتھیاروں کو منظم، محدود یا ممنوع قرار دینے کا اختیار ملنا چاہیے۔
امریکہ میں عوامی مقامات پر شوٹنگ کے واقعات اور گن کلچر دراصل اس کے وفاقی ڈھانچہ سے منسلک ایک بہت ہی جذباتی مسئلہ ہے۔ بندوق کلچر کی حامی تنظیم ’این آر اے‘ کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اس کلچر کے خاتمہ کے لیے کوئی بھی ٹھوس فیصلہ لینے سے قاصر ہے۔ ڈیموکریٹک اور ری پبلکن دونوں ہی پارٹیاں اس حساس معاملے پر کوئی فیصلہ لینے کی جرأت نہیں کر پاتیں۔ سیاست دانوں کو کی جانے والی فنڈنگ کے ذریعہ مذکورہ تنظیم ہر اس قدم کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو اس کے خلاف جا سکتا ہے۔ یہ تنظیم کتنی مضبوط ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ارکان میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سیاست داں شامل ہیں۔ جب بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں، دونوں ہی پارٹیاں رسمی طور پر کچھ بیان بازیاں کر کے اپنا پلو جھاڑ لینے تک ہی محدود رہتی ہیں۔ ڈیموکریٹس کچھ دلدوز اور جذباتی تقریریں کرکے رسم کی ادائیگی کر لیتی ہے، وہیں ری پبلکن سیاست داں ڈیموکریٹس پر اس قومی ٹریجڈی پر سیاست کرنے کا الزام لگانے کو ہی اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔اصلی وجہ تک پہنچنے کی کوشش کوئی بھی نہیں کرتا۔ بہرحال دنیا کا ’مہذب ترین‘ ملک اپنے آئین کی 2 صدیوں پرانی دوسری ترمیم کا طوق اتار پھینکنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے جو وقفہ وقفہ سے امریکہ کے معصوم شہریوں اور بچو ں کی مسلسل ’بلی‘ لیتا رہا ہے۔ امکانات کی یہ سرزمین اس معاملے میں اتنا بے بس کیوں ہے؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS