نان ویج فوڈ فروشوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں؟

0

خواجہ عبدالمنتقم

گجرات کے شہر احمد آباد میں میونسپل حکام کے ذریعہ ٹھیلوں و اسٹالوں پر نان ویج فوڈ فروخت کرنے والوں کی گاڑیوں کو ہٹانے کے سلسلہ میں دائر کیے گئے ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران گجرات ہائی کورٹ کے جج جسٹس ویرن ویشنو نے اپنی اس ضمنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ اہل اقتدار کی خوشنودی کے لیے نان ویج فوڈ کی گاڑیوں، لاریوں اور اسٹالوں کو نہیں ہٹایا جا سکتا اور نہ ہی کسی کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ کون کیا کھائے گا؟ انھوں نے میونسپل کارپوریشن کے وکیل سے کہا کہ آپ یہ کیسے طے کرسکتے ہیں کہ لوگوں کو کیا کھانا چاہیے، وہ بھی اچانک اور اس لیے کہ اقتدار میں کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے۔ کل آپ مجھے اچانک کہہ سکتے ہیں کہ باہر کھانا کھاؤں یا مجھے گنے کا رس نہیں پینا چاہیے کیونکہ اس سے ذیابیطس ہوسکتی ہے یا کافی نہیں پینی چاہیے کیونکہ یہ صحت کے لیے اچھی نہیں ہے۔انھوں نے میونسپل کارپوریشن کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ لوگ آملیٹ اور انڈے بیچتے تھے اور راتوں رات آپ نے انہیں اٹھاکر پھینک دیا کیونکہ حکمراں جماعت یہ چاہتی تھی۔ آپ لوگوں کے درمیان امتیازی سلوک کی کوشش کیسے کررہے ہیں؟ کچھ لوگوں کی انا کی تسکین کے لیے ایسی کمپین نہیں چلا ئی جانی چاہیے۔اس پر میونسپل کارپوریشن کے وکیل نے کہا کہ ان لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا ہے بلکہ تجاوزات کرنے والی ان کارٹ لاریوں کو ہٹایا جارہا ہے جو ٹریفک میں رکاوٹ ہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ نان ویجی ٹیرین کھانا بیچنے والوں کی نشاندہی کرکے صرف انہیں ہٹادیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جن لاریوں کو ضبط کیا گیا ہے، اس سلسلے میں اے ایم سی قانونی طور سے کارروائی کرے گی۔یاد رہے کہ موصوف کی یہ ضمنی رائے (obiter dictum) قابل قدر تو ضرور ہے مگر قابل پابندی نہیں۔اگر یہ رائے حتمی فیصلہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اس کی بجا آوری واجب ہے۔
کون کیا کھائے گا یاکیا پہنے گا ؟یہ اک نجی معاملہ ہے مگراب تو غذا کو بھی اس طرح تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے کہ1947میں ہندوستان کو مذہبی بنیادپرتقسیم کردیا گیا تھا جب کہ گوشت یا سبزی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی ان دونوں کو کسی فرقے، طبقے یا سماج کے کسی بھی زمرے سے منسوب کیاجاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں تمام مذاہب و طبقات سے تعلق رکھنے والے سبزی خور و گوشت خور ہمارے سماج کا حصہ رہے ہیں اور ہیں۔ وہ آئین کی روسے اپنی پسندیدہ غذا کا انتخاب کر سکتے ہیںاوروہ کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنا پسندیدہ کھانا کھانے اور غذا حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ نہ صرف ہمارے آئین میں بلکہ ان تمام بین الاقوامی دستاویزات میں جن کا نیچے ذکر کیا گیا ہے، ہرشخص کو غذا کے معاملے میں مکمل آزادی عطا کی گئی ہے اور متعلقہ مملکتوں سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ عوام کو اچھا کھانا اور اچھی غذا دستیاب کرانے کے لیے کوشاں ہوں گی۔ ہمارے آئین کی دفعہ 47میں بھی یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ مملکت اپنے لوگوں کی غذائیت کی سطح اور معیار زندگی کو بلند کرنا اور صحت عامہ کو ترقی دینا اپنے اولین فرائض میں شمار کرے گی۔ اسی طرح انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ،1948کی دفعہ 25 میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو ایسے معیار زندگی کا حق حاصل ہے جو اس کی اور اس کے خاندان کی صحت اور بہبود، بشمول غذا، لباس، رہائش، طبی دیکھ بھال اور ضروری سماجی خدمات کے حصول کے لیے کافی ہو۔
اسی طرح بین الاقوامی منشور برائے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق،1966کی دفعہ 11 میں بھی اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ اس منشور کی فریقین مملکتیں ہر شخص کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں کہ اسے اور اس کے خاندان کو معقول معیار زندگی میسر ہو، جس میں اچھا کھانا، پوشاک، مکان اور اس کے ساتھ ساتھ رہن سہن میں مسلسل بہتری شامل ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اچھی غذا کس غذا کو کہیں گے۔UN Special Rapporteur کے مطابق صارفین کا یہ حق ہے کہ وہ تمام اشیا جو روایتاً ان کی غذا کا حصہ ہیں وہ تمام اشیا معقول مقدار میں اور معیاری کوالٹی کے ساتھ انھیںبلاخوف ہمہ وقت دستیاب ہونی چاہئیں۔جہاں تک لفظ روایتاً کی تعبیر کی بات ہے تو روایت، رواج یا Customکے بارے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی کافی نظیریں موجود ہیں۔ ان کے مطابق بہ آسانی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب کوئی کام ایک سے زیادہ طریقوں سے کیا جاسکتا ہو مگر تقریباً بلااختلاف ہمیشہ وہ کام ایک ہی خاص طریقے سے کیا جائے اور وہ بھی ایک مخصوص فرقے یا طبقے کے ذریعہ تو یہ کہا جائے گا کہ اس کام کو کچھ خاص طریقے سے کرنے کا رواج ہے۔ اگر عدالت اس رواج کوایک رواج عام اور معقول رواج تسلیم کرلیتی ہے تو اسے رواجی قانون مانا جائے گا۔ مشہور فرانسیسی ماہرقانون Cowellنے اپنی قانونی لغت میں رسم ورواج کی یہ تعریف کی ہے، ’ایک قانون یا حق جو تحریر نہ ہوا ہو بلکہ ہمارے آباواجداد کی منظوری سے ایک عرصے تک استعمال ہونے کی وجہ سے قائم ہو اور روزانہ اس پر عمل ہورہا ہو۔‘ پریوی کونسل نے ایک بہت پرانے معاملے( 1943ع الٰہ آباد ویکلی رپورٹر ص 219)میں اس بارے میں ایک بڑا واضح فیصلہ دیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ رواج کو جائز قرار دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قدیم ہو، مسلسل ہو، معقول ہو، معین ہو اور غیر اخلاقی نہ ہو۔ اس طرح یہ رواج ایک قانونی رواج ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ وہ تمام لوگ جو عرصۂ دراز سے گوشت خور ہیں انھیں گوشت خور کہا جائے گا اور انھیں گوشت کھانے کا مکمل حق ہے۔ البتہ نان ویج فوڈ فروخت کرنے والوں کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ ایسے کسی مقام پر جہاں کھلم کھلا نان ویج فوڈ کی فروخت سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں، وہاں احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
جہاں ہر ذمہ دار شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے قوانین اور ان کے تحت وضع کیے گئے قواعد و ضوابط پر عمل کرے تو وہیں ہمارے قانون ساز اداروں کونہ توایسا سخت گیر قانون بنانا چاہیے اور اور نہ انتظامیہ کو ایسی ہدایات جاری کرنی چاہئیں جس سے کسی کی روزی روٹی ہی چھن جائے اور وہ اپنا پسندیدہ کاروبار،جو اس کے آباواجداد ایک طویل عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں،کرنے کے حق سے ہی محروم ہو جائے۔ آئین کی دفعہ19 (ز) کے تحت ہر شخص کو کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے یا کوئی بھی کام دھندہ کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ آئین کی دفعہ14 میں بھی یہی جذبہ مضمر ہے۔اس دفعہ میں حق مساوات کے حوالہ سے بلا شبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ دفعہ ویج فوڈ یا نان ویج فوڈ فروخت کر نے والوں کو مساوی قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS